علی ظفر نے اگر ہراساں کیا ہے تو معافی مانگنی چاہیے، مومنہ مستحسن

April 23, 2018

کراچی ( مانیٹرنگ ڈیسک) ہولی وڈ و بولی وڈ کے بعد اب پاکستان کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی اداکاراؤں، گلوکاراؤں و دیگر خواتین نے بھی خود کو ہراساں کیے جانے کیخلاف آواز اٹھانا شروع کردیا۔جنسی ہراساں کیے جانے کے خلاف آواز اٹھانے کا آغاز 19 اپریل کو گلوکارہ و اداکارہ میشا شفیع نے کیا، جنہوں نے سوشل میڈیا پر الزام عائد کیا کہ انہیں معروف گلوکار علی ظفر نے متعدد بار ہراساں کیا۔میشا شفیع کے مطابق انہیں اس وقت ہراساں کیا گیا جب وہ 2 بچوں کی ماں اور معروف گلوکارہ بن چکی تھیں، تاہم وہ اس واقعے پر خاموشی رہیں، لیکن اب ان کا صبر جواب دے چکا۔میشا شفیع کی جانب سے الزامات عائد کیے جانے کے بعد علی ظفر نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے گلوکارہ کیخلاف عدالت میں جانے کا اعلان کیا۔دوسری جانب شوبز کی کئی شخصیات نے بھی اس معاملے پر ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا۔میشا شفیع کے بعد عائشہ عمر نے بھی انکشاف کیا کہ انہیں بھی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں ہراساں کیا گیا۔عائشہ عمر کے مطابق انہیں سنگین نوعیت کی ہراسمینٹ کا سامنا رہا، تاہم انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ انہیں کس نے ہراساں یا بلیک میل کیا۔میشا شفیع اور عائشہ عمر کے بعد گلوکارہ مومنہ مستحسن نے بھی خواتین کو ہراساں کیے جانے کے معاملے پر خاموشی توڑتے ہوئے علی ظفر سے مطالبہ کیا کہ وہ میشا شفیع سے معافی مانگیں۔ٹوئٹر پر اپنی لمبی پوسٹ میں مومنہ مستحسن نے لکھا کہ انہیں بھی ہراساں کیا جا چکا ہے، جبکہ سماج میں خواتین کو ہراساں کرنے والے مردوں کا معاملہ علی ظفر تک محدود نہیں ہے۔گلوکارہ کے مطابق خواتین کو زیادہ تر وہی مرد نشانہ بناتے ہیں، جن پر عورتیں بھروسہ کرتی ہیں۔’آفریں آفریں‘ سے شہرت حاصل کرنے والی مومنہ مستحسن کا کہنا تھا کہ اگر کوئی بھی مرد ایسے فعل میں ملوث ہو تو اسے نہ صرف کھل کر اقرار کرنا چاہیے بلکہ اسے سرعام سب کے سامنے اپنی حرکت پر معافی بھی مانگنی چاہیے۔انہوں نے لکھا کہ علی ظفر خود ایمانداری سے بتائیں کہ کیا کبھی انہوں نے کسی کو ہراساں نہیں کیا؟ اور اگر کیا ہے توانہیں شرمندہ ہوکر معافی مانگنی چاہیے۔مومنہ مستحسن کے مطابق ہراساں ہونے والی زیادہ تر خواتین اس لیے کئی سال تک خاموش رہتی ہیں کیوں کہ انہیں بدنامی کا خوف ہوتا ہے اور سماج بھی ان کی سپورٹ نہیں کرتا، بلکہ الٹا متاثرہ خواتین کو ہی غلط سمجھتا ہے۔گلوکارہ نے مداحوں اور پاکستانی افراد کو گزارش کی کہ وہ ہراساں کیے جانے کے خلاف طاقتور مردوں کے خلاف آواز اٹھانے والی خواتین کا سہارا بنیں۔انہوں نے یہ بھی لکھا کہ خواتین کو ہراساں کیے جانے کے زیادہ تر ثبوت نہیں ہوتے، جس وجہ سے اکثر ایسے واقعات میں متاثرہ خواتین کو انصاف نہیں ملتا اور ثبوت فراہم نہ کرپانے پر ان کی کردار کشی بھی کی جاتی ہے، جس وجہ سے ان کی اور ان کے خاندان کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔