تعلیم پر سب سے کم خرچ کرنے والے4 ممالک میں پاکستان شامل

April 26, 2018

لاہور(رپورٹ،شاہین حسن) ملک میں تعلیم حکمرانوں اور سیاست دانوں کی ترجیحات کا کبھی حصہ نہیں رہی جبکہ اس کے بر عکس دنیا میں انسانوں کی ترقی کے لئے سر فہرست اور بنیادی سرمایہ کاری تعلیم کے شعبے میں کی جاتی ہے۔الیکشن سے قبل تعلیم کے لیے ملکی جی ڈی پی کا4فیصد مختص کرنے کے دعووں اور وعدوں کے باوجود ملکی جی ڈی پی کا صرف2.68فیصد ہی تعلیم پر صرف کیا جا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا شمار ان 4ممالک میں ہوتا ہے جو تعلیم پر سب سے کم خرچ کرتے ہیں۔تعلیمی ماہرین کے اندازوں کے مطابق ملک میں تعلیم کے شعبے میں موجودہ کارکردگی کے رہتے ہوئے2076تک ہی پاکستان کا ہر بچہ اسکول میں داخل ہو سکے گا۔اس وقت ملک کے5سے 16سال کے47فیصد2کروڑ40لاکھ بچے اسکولوں میں داخل نہیں ہیں۔جنگ ڈیولپمنٹ رپورٹنگ سیل نے ملک میںا اسکولوں کی حالت زار اور اساتذہ کی دستیابی کے حوالے سے الف اعلان کے اعدادوشمار کا جو جائزہ لیا ہے اس کے مطابق ملک کے16فیصد سرکاری پرائمری اسکول صر ف ایک کلاس روم پر مشتمل ہیں۔سندھ کے27فیصد،بلو چستان کے26فیصد،خیبر پختونخوا کے12جبکہ پنجاب کے6فیصد سرکاری پرائمری اسکول صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں۔پنجاب میں سب سے زیادہ ڈیرہ غازی خان میں21فیصد جبکہ بلوچستان میں لورالائی کے 41فیصد اسکول ایک کمرہ پر مشتمل ہیں۔اسکولوں میں دستیاب اساتذہ کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ملک کے29فیصد اسکولوں میں درس وتدریس کے لئے صرف ایک استاد ہے جبکہ ملک میں اوسط فی سرکاری اسکول 2اساتذہ دستیاب ہیں۔ بلوچستان کے54فیصد، سندھ کے47،خیبر پختونخوا کے19اور پنجاب کے15فیصد اسکولوں میں پڑھانے کے لیے صرف ایک استاد ہے۔ ملک میں ایک جانب اساتذہ کی کمی کا مسئلہ درپیش تو وہیں اساتذہ کی غیرحاضری کا بھی سامنا رہتا ہے۔ملک میں8سے 15فیصد اساتذہ غیر حاضر رہتے ہیں۔بلوچستان میں کسی ایک دن کے دوران15فیصد اساتذہ غیر حاضر رہتے ہیں۔صوبہ سندھ میں13فیصد جبکہ خیبر پختونخوا میں9فیصد اساتذہ غیر حاضر ہوتے ہیں۔ سرکاری سطح پرملک کے کمزور تعلیمی نظام اور ڈھانچے کو غیر فعل اور گھوسٹ اسکولوں کے ناسور کا بھی سامنا ہے۔ملک میں گھوسٹ اسکولوں کی تعداد8ہزار252ہے۔ان میں سے 6 ہزار 164اسکول سندھ میں ہیں۔سندھ میں سب سے زیادہ غیر فعل اور گھوسٹ اسکول ٹھٹہ میں897 اور تھرپارکر میں858ہیں۔سندھ کے بعدخیبر پختونخوا میں غیر فعل اور گھوسٹ اسکولوں کی تعداد1663ہے۔کوہستان کے1133اسکولوں میں سے878گھوسٹ اسکولز ہیں۔ پنجاب میں غیر فعل اور گھوسٹ اسکولوں کی تعداد252ہے۔ ملک میں سرکاری پرائمری اسکولوں کی عمارتوں کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو 45فیصد اسکولوں کی عمارتوں کی حالت غیر تسلی بخش ہے۔ بلوچستان کے سرکاری پرائمری اسکولوں کی83فیصد،سندھ کی71،پنجاب کی18جبکہ خیبر پختونخوا کے14فیصد اسکولوں کی بلڈنگز کی حالت غیر تسلی بخش ہے۔حکومت کے پرائمری اسکولوں میں دستیاب سہولتوں کا جائزہ لیا جائے تو49فیصد اسکولوں میں بجلی نہیں،37فیصد میں پینے کا پانی دستیاب نہیں،35فیصد بیت الخلا سے محروم جبکہ 33فیصد بغیر چار دیواری کے اسکول ہیں۔ صوبوں کا جائرہ لیا جائے توبجلی کی سہولت سے محروم سب سے زیادہ اسکول بلوچستان میں ہیں جن کی شرح79فیصد ہے۔ سندھ کے66،خیبر پختونخوا کے47اورپنجاب کے19فیصد اسکولوں میں بجلی نہیں ہے۔ بلوچستان کے68، سندھ کے53،خیبر پختونخوا کے37اورپنجاب کے3فیصد اسکولوں میں پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔