جنرل باجوہ کی پی ٹی ایم معاملے پر سابق سینئر پشتون افسران سے ملاقات

April 27, 2018

راولپنڈی ( مانیٹرنگ ڈیسک )پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے حال ہی میں قبائلی نوجوانوں کی تنظیم پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کی سرگرمیوں اور فاٹا کی موجودہ صورتحال پر مشاورت کے لیے فوج اور سول اداروں میں اہم عہدوں پر فائز رہنے والے سابق سینئر پشتون افسران سے ملاقات کی۔جی ایچ کیو میں ہونے والی اس ملاقات میں فوج کے سابق جرنیلوں جنرل احسان، جنرل علی قلی خان، جنرل حامد خان، جنرل عالم خٹک، میجر جنرل تاج الحق کے علاوہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ سعد محمد، محمود شاہ، سابق چیف سیکریٹری جاوید اقبال اور پولیس کے سابق سربراہ عباس خان نے شرکت کی۔ملاقات میں شریک بریگیڈیئر ریٹائرڈ سعد محمد نے بی بی سی کو بتایا کہ فوج کے سربراہ نے پشتون تحفظ تحریک، فاٹا کے معاملات اور افغانستان سے متعلق باہمی تعلقات پر تفصیلاً گفتگو کی اور ان تمام معاملات پر ان کا موقف انتہائی مثبت نظر آیا۔سعد محمد کے بقول ʼجنرل صاحب نے اس بات کا تذکرہ کیا کہ پی ٹی ایم چونکہ بیشتر نوجوانوں پر مشتمل تنظیم ہے لہٰذا انہیں اس بات کا احساس ہے کہ ان میں زیادہ تر جذباتی نوجوان ہیں اور ہم بھی چاہتے ہیں کہ ان سے مذاکرات کریں اور ان کے مسائل کو حل کیا جائے۔انھوں نے کہا کہ پی ٹی ایم نے فوج کے ضمن میں انتہائی سخت موقف اپنایا ہوا ہے اور ان کے خلاف بعض ایسے نعرے لگائے جارہے ہیں جو کسی صورت نہیں ہونے چاہیے لیکن اس کے باوجود فوج کے سربراہ انتہائی مثبت تھے۔بریگیڈیر سعد محمد کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس بات سے اتفاق کیا کہ پی ٹی ایم کے بعض مطالبات جائز ہیں اور ان کو فوری طورپر حل ہونا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ فوج نے پہلے ہی سے پشتون تحفط تحریک کے بعض مطالبات پر کام کا آغاز کیا ہوا ہے جس میں بارودی سرنگوں کا خاتمہ، چیک پوسٹوں میں کمی اور لاپتہ افراد کا معاملہ قابل ذکر ہے۔ہم تمام سینئر افسران نے آرمی چیف کو تجویزی دی کہ پی ٹی ایم میں شامل سب ہمارے اپنے بچے ہیں اگر وہ تیزی بھی کرتے ہیں تو فوج یا حکومت کو نرمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ معاملات کو بگڑنے سے بچایا جاسکے۔ بریگیڈیر ریٹائرڈ سعد محمد نے مزید کہا کہ پی ٹی ایم کو بھی اب اپنے موقف میں نرمی لانی چاہیے بالخصوص اداروں کے حوالے سے ان کا موقف انتہائی نوعیت کا ہے۔انھوں نے کہا کہ فوج کے سربراہ نے فاٹا میں تبدیلیوں اور پڑوسی ممالک افغانستان اور ہندوستان سے متعلق تعلقات پر بھی سیرحاصل گفتگو کی اور ان کے موقف میں خاصی لچک بھی نظر آئی جس سے بظاہر لگتا ہے کہ مستقبل میں حالات مزید بہتری کی جانب بڑھیں گے۔