علی کوثر
غضب کی دھوپ میں جھلسا ہوا ہوں
جبھی تو زینتِ صحرا ہوا ہوں
میں سارے شہر کو چبھنے لگا ہوں
تمہاری آنکھ کا تارا ہوا ہوں
یہ دنیا تو مرے قدموں تلے ہے
مگر میں تارکِ دنیا ہوا ہوں
یہاںہر شخص کو اپنی پڑی ہے
میںکیسے دور میںپیدا ہوا ہوں
تو گویا اب مجھے عزت ملے گی
کسی کے عشق میں رسوا ہوا ہوں
علی کوثر، ہجومِ دوستاںمیں
مثالِ آئینہ، سچا ہوا ہوں