وفاقی بجٹ کی آئینی، قانونی اور اخلاقی حیثیت؟

May 04, 2018

پتہ نہیں ہمارے حکمرانوں کو کس کی نظر لگ گئی ہے کہ ان کے اکثر اقدامات اور پالیسیاں آئین کے حوالے سے بھی متنازع ہوتی ہیں اورقانونی و اخلاقی حوالے سے بھی، یہ افسوسناک صورتحال کافی عرصے سے جاری ہے، اس سلسلے میں ماضی قریب میں ہمارے حکمرانوں کی طرف سے کئے گئے ایسے کئی اقدامات اور پالیسیوں کے حوالے دیئے جاسکتے ہیں بلکہ تقریباً ایک دو سال سے میں اپنے کالموں میں ایسے اقدامات اور پالیسیوں کی نشاندہی کرتا آیا ہوں مگر ہمارے حکمرانوں نے کبھی ان باتوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور یہ روش تا حال جاری ہے، اب تو قومی بجٹ جو کسی بھی ملک اور قوم کے لئے انتہائی اہم اور حساس ہوتا ہے اس کا بھی یہ حشر کیا گیا ہے۔ اس کو اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ایم این ایز نے آئین، قانون اور خاص طور پر صوبوں کے حقوق کے منافی قرار دیا، بجٹ اجلاس سے واک آئوٹ کیا اورر یہ ایم این ایز بجٹ کی متنازع منظوری کا حصہ نہیں بنے۔ اس سلسلے میں مخالف سیاسی جماعتوں اور کئی ممتاز اقتصادی ماہرین کی طرف سے جو اعتراض کئے جارہے ہیں وہ مختصر طور پر کچھ اس طرح ہیں۔ سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ بجٹ ایسے شخص سے پیش کرایا گیا جو قومی اسمبلی کا ممبر بھی نہیں ہے، اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے سے چند دن پہلے جب قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) کے اجلاس میں بجٹ اور مالیاتی پروگرام پیش کیا گیا تو اس بات پر شدید اعتراض کیا گیا کہ ایسے شخص سے کیسے بجٹ تیار کراکے اسمبلی میں پیش کیا جارہا ہے جو ابھی اسمبلی کا ممبر بھی منتخب نہیں ہوا بلکہ اس نے وفاقی وزیر خزانہ کا حلف ایک دن پہلے ہی اٹھایا ہے، اس سلسلے میں حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ایسا وفاقی وزیر جو قومی اسمبلی کے ممبر کے طور پر منتخب نہیں ہوا ہے وہ چھ ماہ تک اس حیثیت میں اپنے فرائض سرانجام دے سکتا ہے مگر اس کے بھی دو بہت اہم پہلو ہیں، ایک پہلو یہ ہے کہ کیا ایسے کسی وزیر کو خزانہ جیسا اہم اور حساس محکمہ دیا جاسکتا ہے؟ ایسے وزیر کو چھ ماہ کے لئے کوئی غیراہم محکمہ حوالے کیا جائے۔ تو چلئے اس بات کو کسی حد تک تسلیم کیا جاسکتا ہے، دوسرا انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ ایک مملکتی وفاقی وزیر خزانہ تو پہلے ہی موجود ہیں اور کافی عرصے سے و فاقی کابینہ کے ممبر کے طور پر وزارت خزانہ کے معاملات کو سنبھال رہے تھے۔ ملک کے مالیاتی ماہرین سوال کرتے ہیں کہ ایک مملکتی وزیر خزانہ کے ہوتے ہوئے بجٹ جیسے اہم ایشو پر ایک غیر منتخب ممبر اور حکومت چلانے کا تجربہ نہ رکھنے والے شخص کو یہ اہم ذمہ داری کیوں دی گئی؟ کچھ اقتصادی ماہرین کا یہ بھی موقف ہے کہ اگر حکومت کے لئے مفتاح اسماعیل کو فوری طور پر وفاقی وزیر خزانہ کا حلف اٹھوا کر ان سے مالی سال کا بجٹ بنوانا مجبوری تھی تو چلئے ان سے یہ کام کرا لیتے مگر اسمبلی میں بجٹ تو وفاقی مملکتی وزیرخزانہ سے پیش کرایا جاتا۔ اس بجٹ پر مخالف سیاسی جماعتیں اور چھوٹے صوبوں کے ماہرین اقتصادیات یہ اعتراض بھی کررہے ہیں کہ کیوں اس بجٹ میں نئے قومی مالیاتی ایوارڈ کا اعلان نہیں کیا گیا، دیکھا جائے تو مسلسل یہ چوتھا سال ہے کہ صوبوں کے لئے قومی مالیاتی ایوارڈ کا اعلان نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے صوبوں کے ساتھ اقتصادی ناانصافیاں کی جارہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ این ایف سی ایوارڈ ہر سال جاری کیا جائے گا۔ اگر موجودہ حکمران پارٹی کے اس موقف کو تسلیم کیا جائے تو ساتھ ہی صوبوں اور خاص طور پر چھوٹے صوبوں کے لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر ایسا ہے تو این ایف سی ایوارڈ کے متعلق آرٹیکل کو آئین میں شامل کیوں کیا گیا ہے؟ اگر یہی کچھ کرنا ہے تو آئین سے ان صفحوں کو نکال کیوں نہیں دیا جاتا جن پر این ایف سی ایوارڈ والا آرٹیکل نمبر160 درج ہے۔ آئین میں این ایف سی کے آرٹیکل کے اوپر یہ سطر لکھی ہوئی ہے کہ : اس آرٹیکل کے تحت وفاق اور صوبوں کے درمیان آمدنی کی تقسیم ہوگی۔ اگر ہمارے حکمران اس آرٹیکل کو تسلیم نہیں کرتے تو اس بجٹ میں صوبوں کے لئے جو رقوم مختص کی گئی ہیں وہ آئین کی کس شق کے تحت کی گئی ہیں، جب این ای سی میں حکومت کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا گیا تو تینوں چھوٹے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے اس رویے کے خلاف سخت احتجاج کیا اور بطور احتجاج اجلاس سے بائیکاٹ کرکے باہر آگئے، چھوٹے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا کہنا تھا کہ اس بجٹ میں چھوٹے صوبوں کے کئی اہم منصوبوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ یہ بجٹ پنجاب کا بجٹ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب این ای سی میں بجٹ پیش کیا گیا تو اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ غائب ہوگئے، چھوٹے صوبوں کے حلقوں کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب کو یقین تھا کہ بجٹ تو ویسے ہی پنجاب کے مفادات کو مدنظر رکھ کر بنایا جائے گا لہٰذا اس لئے انہوں نے اجلاس میں شرکت کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ بائیکاٹ کے بعد این ای سی کے اجلاس میں کورم ہی ٹوٹ چکا تھا جو کوئی بھی فیصلہ کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے لہٰذا چھوٹے صوبوں کے اقتصادی ماہرین کے مطابق کورم پورا نہ ہونے کے باوجود منظور کئے گئے بجٹ کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں ہے مگر حکومتی حلقوں کا اس سلسلے میں بھی یہ کہنا ہے کہ آئین کی متعلقہ شق کے مطابق این ای سی سے بجٹ کی منظوری مطلوب نہیں ہے۔ این ای سی تو فقط سفارش کرسکتی ہے۔ اس سلسلے میں یہ حلقے آئین کی شق 156(2) کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں صوبائی اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس شق کے تحت این ای سی ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال کا جائزہ لیکر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مشورہ دے گی کہ اس رخ میں منصوبے بنائے جائیں۔ مگر صوبائی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومتی ماہرین اس شق کے باقی حصے کو کیوں نظر انداز کردیتے ہیں جو انتہائی اہم ہے۔ اس حصے میں کہا گیا ہے کہ :
"In formulating such plans, it shall, amongst other factors, ensure balanced development and regional equity and shall also be guided by the principles of policy set out in chapter 2 of part II"
صوبائی اقتصادی ماہرین نے سوال کیا ہے کہ اس شق پر مکمل عمل نہ کرنے کی وجہ سے ملک بھر کے سارے صوبوں میں متوازن ترقی اور علاقائی مساوات کو کیسے یقینی بنایا جاسکتا ہے‘ یہی سب کچھ تو نہیں جس کی وجہ سے چھوٹے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے این ای سی کا بائیکاٹ کیا اور بعد میں مخالف جماعتوں کے ایم این ایز قومی اسمبلی میں بجٹ منظوری کا حصہ نہیں بنے لہٰذا اس بجٹ کو قومی، آئینی، قانونی اور اخلاقی کیسے کہا جاسکتا ہے؟۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)