بزنس ایجوکیشن

May 06, 2018

دنیا بھر کے بزنس اسکولز میں یہ بحث چھڑ چکی ہے کہ مستقبل میں یہ ان کی ہیئت کیا ہوگی؟ اس سلسلے میں بزنس اسکولز میں نصابی کتب، تحقیق اور اسٹوڈنٹ Experiencesکو لے کر بحث، منصوبہ بندی اور امکانات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ تیزی سے بدلتی دنیا میں طلبا اور جاب مارکیٹ کو اس وقت کس چیز کی ضرورت ہے اور مستقبل میں کیا درکار ہوگا؟ اس پر نظر رکھنا اور اس کی تیاری کرنا بہت ضروری ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان، ملک میںمعیاری بزنس ایجوکیشن کے لیے کوشاں ہے۔ اس ادارے کا ایک مینڈیٹ یہ بھی ہے کہ وہ ملک میں معیاری بزنس ایجوکیشن کو فروغ دے۔

اس سلسلے میںایچ ای سی نے نیشنل بزنس ایجوکیشن ایکریڈیشن کونسل قائم کی ہوئی ہے۔ نیشنل بزنس ایجوکیشن ایکریڈیشن کونسل، ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے بنایا گیا ایک قومی ایکریڈیشن ادارہ ہے، جو ملک میں معیاری بزنس ایجوکیشن کے فروغ کیلئے کوشاں ہے۔اس وقت پاکستان میں بزنس کی تعلیم دینے والے اداروں کی تعدادکوئی دو سو کے لگ بھگ ہے، جہاںبی بی اے اور ایم بی اے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ایچ ای سی کے نئے متعین کردہ معیارات کے مطابق بی بی اے کی ڈگری چار سال دورانیہ اور بی بی اے کے ساتھ ایم بی اے کی ڈگری ایک سال کی ہوتی ہے۔ جب کہ براہ راست ایم بی اے کی ڈگری ڈھائی سال اور ساڑھے تین سال کی ہوتی ہے۔

فاصلاتی بزنس ایجوکیشن

تعلیمی ترقی کسی بھی ملک کی سماجی، ذہنی اور انسانی مہارتوں کیلئے اہم ہے۔ عصر حاضر میں اقتصادی ، معاشی اور صنعتی میدان میں مقابلہ کرنے کے لیے بزنس ایجوکیشن کی اہمیت مسلمہ ہے اور پاکستان جیسی ترقی پذیر معیشت میں آنے والے کئی برسوں تک بزنس گریجویٹس ڈیمانڈ میںرہیںگے۔ اسی ضرورت کے پیش نظر پاکستان میں فاصلاتی تعلیم کے سب سے بڑے اور معتبر ادارے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے بزنس ایجوکیشن کے لیے خصوصی ڈگری پروگرام شروع کیا ہے۔

یہ پروگرام کاروباری شعبہ سے وابستہ افراد کے لیے خصوصی طور پر تیار کیا گیا ہے۔یونیورسٹی کا ماننا ہے کہ اس پروگرام سے طلبا و طالبات کو کاروباری امور سے متعلق اپنی استعداد بڑھانے کا موقع ملے گا اور وہ نوجوان جو کاروباری مصروفیات کے باعث یونیورسٹی نہیں جاسکتے، وہ فاصلاتی نظام تعلیم سے استفادہ حاصل کرسکیںگے۔اس پروگرام کے لیے نصابی کتب اور مواد بین الاقوامی معیار کے مطابق تیار کیا گیا ہے۔

پاکستان میں کئی ادارے بین الاقوامی معیار کی بزنس ایجوکیشن دے رہے ہیں، تاہم جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا گیا کہ بزنس ایجوکیشن کو بدلتے حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ بزنس ایجوکیشن کے نصاب اور تدریس میں وہ تبدیلیاں لانا ہوں گی، جو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔ اس سلسلے میں یہاں چند تجاویز پیش کی جارہی ہیں، جو پاکستان میں بزنس ایجوکیشن کو مزید مؤثر اور بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔

ٹیکنالوجی کا استعمال

دور جدید میں بزنس اور ٹیکنالوجی لازم و ملزوم بن چکی ہیں۔ ٹیکنالوجی اور بزنس کے بڑھتے ہوئے تعلق کی وجہ سے طلبا کو انڈسٹری میں استعمال ہونے والے بہترین پروگرامز کے استعمال کی ٹریننگ دینی چاہیے۔ زیادہ تر یونیورسٹیوں میں اوریکل، سیپ، ایکسل، مائیکروسافٹ پراجیکٹ، ریٹیل پرو، مائی ایس کیو ایل، گوگل ایڈ ورڈز اور فوٹوشاپ سکھایا جاتا ہے۔ لیکن بسا اوقات نا صرف یہ کہ یہ بنیادی سطح کی ٹریننگ ہوتی ہے، بلکہ دنیا اب انٹرنیٹ آف ایوری تھنگ اور بلاک چین ٹیکنالوجی کے دور میں داخل ہورہی ہے۔ ہمارے بزنس گریجویٹس کو ان ٹیکنالوجیز میں مہارت دینے کی ضرور ت ہے۔

نیٹ ورکنگ انتہائی اہم

یقیناً ہر شخص آج کے دور میں نیٹ ورکنگ کی اہمیت سے باخبر ہے۔ تاہم جب بات بزنس گریجویٹ کی آتی ہے تو نیٹ ورکنگ کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔کسی بھی بزنس گریجویٹ کے لیے سب سے اہم اثاثہ اس کا نیٹ ورک ہوتا ہے۔ بزنس گریجویٹس کی ایک بہت ہی کم تعداد یہ مانتی ہے کہ فیس بک، ٹوئٹر اور لنکڈ اِن فائدہ مند چیزیں ہیں۔ حالیہ چند برسوں میں لنکڈ اِن کے ذریعے جاب Recruitments کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اب وہ دن نہیںرہے، جب کارپوریشنز کے ایچ آر منیجرز، مائیکروسافٹ ورڈ یا پی ڈی ایف فارمیٹ پرتیار کی گئی، سیکڑوں سی ویز میں سے امیدواروں کاانتخاب کرتے تھے۔ آج کل کارپوریشنز میں ریکروٹمنٹ اسپیشلسٹس بھرتی کئے جاتے ہیں، جو لنکڈ ان کے ذریعے صحیح افراد کو جلد سے جلد اور زیادہ مؤثر طور پر ڈھونڈ لیتے ہیں۔

بات چیت کی صلاحیت کو بہتر بنانا ہوگا

عمومی تاثر یہ ہے کہ بزنس گریجویٹس اور باقی شعبوں کے گریجویٹس میں بنیادی فرق بول چال کا ہوتا ہے۔ بزنس گریجویٹس میں کمیونی کیشن کی صلاحیت دیگر گریجویٹس کے مقابلے میں کہیں بہتر ہوتی ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو آپ کو بہتر پبلک اسپیکر بننا چاہیے۔پریزنٹیشن دینا پبلک اسپیکنگ کا صرف ایک حصہ ہے۔ سمپوزیمز میں تقریر کرنا ایک بالکل دوسری بات ہے۔ ہمارے بزنس اسکولز کو چاہیے کہ وہ TEDx کی طرز پر ایونٹس کا انعقاد کریں، جہاں طلبا کو اپنے نئے آئیڈیاز کا اظہار کرنے کا موقع دیا جائے۔

کیس اسٹڈیز کی لوکلائزیشن

یہ بہت ضروری ہے کہ اہم بزنس گریجویٹس کی اس بات پر حوصلہ افزائی کریں کہ وہ مقامی کیس اسٹڈیز زیادہ ڈیویلپ کریں۔ ٹھیک ہے اسٹیو جابز، بل گیٹس، ہینری فورڈ کو بھی پڑھائیں لیکن ساتھ میں مقامی کیس اسٹڈیز لازمی شامل کریں۔ مقامی کیس اسٹڈیز سے ہمارے گریجویٹس کو کہیں زیادہ سیکھنے کو ملے گا۔ ہم اپنے طلبا کو بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض، ایدھی فاؤنڈیشن کے عبدالستار ایدھی، نشاط گروپ کے میاں منشا، اسٹاک مارکیٹ گرو عارف حبیب، نیٹسول ٹیکنالوجیز کے روح رواں سلیم غوری کے کاروباری سفر کے بارے میں بھی پڑھا سکتے ہیں۔

انٹرپرنیوئرشپ

ہمیں اپنے بزنس گریجویٹس کو بزنس اسٹارٹ اپ کی اہمیت سے متعارف کرانا چاہیے۔ ایک بزنس گریجویٹ کو ملازمتیں پیدا کرنے والا ہونا چاہیے ناکہ ملازمت ڈھونڈنے والا۔ ہمارے کچھ بزنس اسکولز میں انکیوبیشن سینٹرز قائم کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں اول بات یہ کہ انکیوبیشن سینٹرز کے جال کو وسیع بنایا جائے اور دوئم یہ کہ، ہمارے بزنس اسکولز کو انکیوبیشن سینٹرز سے ایک قدم آگے جاتے ہوئے ایسا ماحول قائم کرنا چاہیے کہ سارا بزنس اسکول ہی انکیوبیٹر بن جائے، جہاں طلبا گروپس کی صورت میں اپنے بزنس آئیڈیاز زیربحث لائیں اور ان آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنی یونیورسٹیز سے منسلک سرمایہ کاروں سے انویسٹ منٹ حاصل کریں۔