استقبالِ رمضان، مگر کیسے؟

May 08, 2018

یہ بڑا عجیب مہمان ہے۔ اس کی آمد کا طریقہ تو عجیب تر ہے۔ دبے پائوں تحفوں، نعمتوں، برکتوں اور رحمتوں سے لدا پھندا چپ چاپ ہماری زندگی میں چند ساعتوں کیلئے آتا ہے۔ جس نے اس کو پہچان لیا اور آگے بڑھ کر اس کا پرجوش خیرمقدم کیا، اس پر تو وہ اتنی بے حساب نعمتیں برساتا اور تحفے نچھاور کرتا ہے کہ جل تھل کردیتا ہے اور جس نے تن آسانی، سستی اور غفلت سے اس کا نیم دلانہ استقبال کیا، تو یہ پیکرِ جود سخا، دو چار چھینٹیں اس پر بھی چھڑک ہی جاتا ہے۔ اسی لئے اس میخانے کا محروم بھی محروم نہیں کہلاتا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رمضان کے مہینے میں میری امت کو 5ایسی نعمتیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی تھیں۔ اول، رمضان کی پہلی رات میں اللہ ان پر نظر کرم کرتا ہے اور جس پر اللہ نظر کرم کرتا ہے، اسے کبھی عذاب سے دوچار نہیں کرتا۔ دوم، فرشتے ہر رات اور اور ہر دن اس کے لئے مغفرت کی دُعا کرتے ہیں۔ سوم، اللہ اس کے لئے جنت واجب کردیتا ہے اور جنت کو حکم دیا جاتا ہے کہ روزہ دار بندے کی خاطر خوب آراستہ و پیراستہ ہوجائو تاکہ دنیا کی مشکلات اور تھکاوٹ کے بعد میرے گھر اور میری مہمان نوازی میں آرام ملے۔ چہارم، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ پنجم، رمضان کی آخری رات روزہ دار کے سارے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔
رمضان کی یہ ساری نعمتیں ان لوگوں کے لئے ہیں جو حقیقی معنوں میں روزے دار ہوں۔ حقیقی روزے دار کون ہوتا ہے؟ اس بارے میں نبی کریمؐ کا ارشاد ہے: جو جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے، اللہ کو اس کے کھانے پینے چھوڑنے سے غرض نہیں۔ رمضان کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ انسان صبح سے شام تک کھانا چھوڑدے اور باقی خرافات میں لگا رہے۔ روزہ اصل میں زبان کا بھی ہو، ہاتھ کا بھی ہو اور پائوں کا بھی ہو۔ آپؐ نے فرمایا روزہ صرف کھانا پینا چھوڑنے کا نام نہیں، بلکہ گالم گلوچ اور فضول گوئی چھوڑنے کا نام ہے۔ اگر کوئی تمہیں گالی دے یا تمہارے ساتھ جھگڑنے لگے تو تم کہو میں روزے سے ہوں۔‘‘
جھوٹ، چغل خوری، لغویات، غیبت، عیب جوئی، بدگوئی، بدکلامی اور جھگڑا وغیرہ سب چیزیں اس میں داخل ہیں۔ نبیؐ نے فرمایا:روزہ ڈھال ہے۔ روزہ دار کو چاہیے بے حیائی کے کاموں اور لڑائی جھگڑے سے بچے۔ روزہ معاشرے کے غربا اور فقرا سے تعلق پیدا کرنے اور انکی ضروریات پوری کرکے معاشرے میں امیر وغریب کے درمیان بھائی چارہ پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں غریب امیر کے درمیان جو دوری پیدا ہوئی ہے، وہ معاشرے کے امن وامان اور بھائی چارےکیلئے زہر قاتل ہے۔ اسکے نتیجے میں ایک ایسا لاوا پک رہا ہے جو کسی بھی وقت ہمارے ملک کے امن وامان اور طبقہ امرا کے ظاہری آسائش وراحت کو بھسم کرسکتا ہے۔
روزے کے احکام پر عملدرآمد کرتے ہوئے اجتماعی افطار وسحر اور مل جل کر کھانے پینے کی مجالس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ رمضان میں نمازوں کا خوب اہتمام کرنا چاہیے۔ نماز محمود وایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ کی ادائیگی پر خاص توجہ دینی چاہیے۔ سحری، افطاری اور تراویح مسلمانوں پر اللہ کی ایسی خاص عنایات ہیں جو مسلمان معاشرے کو ایک الگ ممتاز حیثیت دلاتی ہے۔ اسلام مسلمانوں کو یہ بھی ہدایت کرتا ہے کہ لوگوں کے مسائل اور مشکلات میں ان کا ساتھ دیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کا استحصال ہو۔ ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت پیدا کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ؐکو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کتنا بُرا ہے اشیائے ضروریہ کو روک لینے والا آدمی۔ اگر اللہ چیزوں کے نرخ کو سستا کرتا ہے تو اسے غم ہوتا ہے اور جب قیمتیں چڑھ جاتی ہیں تو خوش ہوتا ہے۔ (مشکوٰۃ)
ہمارے ہاں یہ عجیب چلن ہے رمضان اور دیگر تہواروں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں دگنا تگنا اضافہ کردیتے ہیں جبکہ غیر مسلم ممالک میں ہر تہوار اور خوشی کے موقع پر اکثر چیزوں کی نرخوں میں چالیس سے پچاس فیصد تک رعایت اور کمی ہوجاتی ہے۔ حکومت ہر سال رمضان پیکیج کا اعلان کرتی ہے۔ جس سے استفادے کی صورت صرف یہ ہوتی ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹور سے دال چینی خریدی جائے۔ اس کے علاوہ کہیں پر اَثرات نظر نہیں آتے۔ حکومت کو چاہیے کہ تمام اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں 30 سے 40 فیصد کمی کا اعلان کرے۔ عوام کو دی جانے والی ریلیف کی تشہیر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں کرے۔ پورے رمضان میں بجلی اور گیس کو یقینی بنائے۔ بالکل لوڈشیڈنگ نہ کرے۔ تمام ٹی وی چینلز پر قرآن کی تلاوت، ترجمہ، تشریح کے لئے اوقات مقرر کرے۔ احادیث مبارکہ اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دُروس کو لازمی کریں۔ فحش اور بے ہودہ پروگراموں پر مکمل پابندی عائد کرے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ امن و امان اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ رمضان میں آپ ؐکی سخاوت اور عبادت بہت زیادہ ہوجایا کرتی تھی، جبکہ ہمارے بخل اور کمائی میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ وہ سنہری اُصول جو آپ نے مسلمانوں کو بتائے تھے ان پر ہمارے بجائے غیر عمل کررہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ترقی کررہے ہیں اور ہم پستی اور زوال کی گہری کھائیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ اسلام کے بعض احکام ایسے ہیں جن کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اعمال کرنے والے ترقی کرتے ہیں۔ خواہ وہ اعمال مسلمان کریں یا کفار ومشرکین۔ جو بھی ان اعمال کو اختیار کرے گا وہ ترقی ضرور کرے گا۔ ان میں سے بعض اعمال یہ ہیں: انتظام اور نظم وضبط، پابندیٔ وقت، رازداری، اتحاد واتفاق، عزت نفس، اپنے کام سے لگن، قومی املاک کی حفاظت، اجتماعیت۔ ذرا گہری نظر سے جائزہ لیجیے ان اقوام کی ترقی انہی اعمال کی وجہ سے ہے۔ یہ قیمتی اصول انہوں نے ہمارے گھر سے چرائے ہیں۔ انہوں نے قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں کی تیز رفتاری ترقی دیکھی۔ ہماری ترقی دیکھ کر ان کے منہ میں بھی پانی بھر آیا۔ انہوں نے بھی ہماری ترقی کے رازوں کی جستجو کی۔ وہ حقیقت کو پاگئے۔ انہوں نے ان اصولوں کو ترقی کا اصل راز سمجھا اور انکو اپنی زندگی کا حصہ بنالیا۔ چونکہ ان اصولوں کی خاصیت ہی یہ ہے وہ ان پر عمل کرنے والوں کو ترقی اور عزت دیتے ہیں۔ اس لئے وہ ترقی کرتے چلے گئے۔
حضرت علیؓ کا قول ہے:معاشرہ کفر کی وجہ سے تو باقی رہ سکتا ہے، لیکن ظلم اور ناانصافی پر مبنی معاشرہ نہیں۔ آج وطنِ عزیز میں عوام کا سب سے بڑا مسئلہ امن وامان ہے، رشوت اور حرام خوری ہے، قتل وغارت گری ہے، دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے، ملاوٹ اور کرپشن ہے، بدامنی، چور بازاری اور بد دیانتی ہے، ظلم وناانصافی ہے۔ اور تو اور رمضان جیسے مہینے میں بھی عوام کو لوٹنے اور اپنی تجوریاں بھرنے کا چلن ہے۔ ہم رمضان میں بھی غریبوں کے لئے سہولتیں اور راحتیں دینے کے بجائے مشکلات اور تکلیفیں پیدا کرتے ہیں۔ سستی اشیا فراہم کرنے کے بجائے غریبوں کا خون نچوڑتے ہیں۔ ہمیں من حیث القوم چاہیے ہم ایثار، قربانی، ڈسپلن اور برداشت کا مادہ پیدا کریں تاکہ بیش بہا اور لازوال تحفوں، نعمتوں اور برکتوں سے اپنا پورا پورا حصہ وصول کرسکیں اور مہمان مکرم کے چلے جانے کے بعد کسی افسوس، حسرت، ندامت یا پشیمانی کا شکار ہونے کے بجائے صمیم قلب سے اللہ کے شکر گزار ہوں کہ اللہ نے خوب توفیق سے نوازا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)