بلوچستان میں تھیلے سیمیا کی شرح ملک میں سب سے زیادہ

May 09, 2018

تھیلےسیمیاایسی جنیاتی بیماری ہے جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے،بلوچستان میں اس بیماری کی صورتحال تشویشناک ہوتی جاری ہے،جی ہاںصوبے میں ہرسال کم وبیش ایک ہزاربچےاس بیماری کےساتھ جنم لےرہےہیں ۔

تھیلےسیمیاکاذکر ہوتو تصورمیں بےبسی کی تصویر بنےبچےاور نوجوان سامنےآجاتےہیں،جن کی زندگی کاانحصارصرف اور صرف تازہ خون ملنے اوربہترنگہداشت پرہوتاہے اوراگرخدانخواستہ ایسا نہ ہوتو زندگی ان کےلئے آزمائش بن جاتی ہے۔

پاکستان میں تھیلےسیمیاکی شرح تقریبا ًچھ فیصد ہے، مگر بلوچستان میں اس کی شرح آٹھ فیصدسے زیادہ ہو گئی ہے ۔

سربراہ ہیماٹالوجی بولان میڈیکل کمپلیکس اسپتال اور تھیلے سیمیا کیئر سینٹر کوئٹہ کے پروفیسرڈاکٹرندیم صمدشیخ نے جیو نیوز کو بتایا کہ ہمارےاعدادوشمار کے مطابق بلوچستان میں ہرسال تقریباً ایک ہزار بچہ تھیلےسیمیاکےمرض کےساتھ جنم لےرہاہے،ان بچوں میں کچھ تو رجسٹرڈ ہوجاتے ہیں مگر زیادہ تر رجسٹرنہیں ہوپاتے اور گھروں میں ہی رہتے ہیں،لیکن یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں تھیلے سیمیاکےمرض کی شرح سب سےزیادہ ہے،اور روز بروز ایسے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔

ان کاکہناتھا کہ صوبے کےبلوچ اورپشتون قبائل میں یہ مرض زیادہ شدت سےسامنے آرہاہے،بلوچ اکثریتی علاقوں میں یہ شرح آٹھ اعشاریہ ایک ریکارڈ کی گئی ہے،تاہم پشتون اکثریتی علاقوں میں یہ شرح پانچ اعشاریہ چھ فیصدہے۔

تھیلےسیمیا کی بیماری کی وجوہات میں اس جین کےحامل افراد کی لاعلمی کی بناپرشادی کاہوناہے۔

ڈاکٹرندیم صمدشیخ کےمطابق تھیلےسیمیا مائنرجین کےحامل دو افراد آپس میں شادی کرلیں تو اس کے نتیجہ میں پیدا ہونےوالےکچھ بچے تھیلےسیمیا میجر کاشکار ہوسکتے ہیں،اس کاایک بڑاسبب کزن میرج کاتسلسل بھی ہے۔

صوبے میں بیماری کی بڑھتی شرح کےساتھ تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ مریضوں کےلئےخون کی دستیابی اوراندرون صوبہ سہولیات کی عدم فراہمی بڑا مسئلہ بن رہی ہے۔

تھیلےسیمیاکےمرض میں مبتلا بچوں کےوالدین کےلئے ضرورت کےوقت خون کابندوبست کرنابہت مشکل مرحلہ ہوتاہے، کئی علاقوں میں صحتمند اورسکرین شدہ خون دستیاب نہیں ہوتا، علاقے کےلوگ حتی کہ رشتہ دار بھی تھیلےسیمیامیں مبتلابچوں کے والدین سے ضرورت کےوقت کتراتے ہیں کہ کہیں وہ ان سےخون دینے کا مطالبہ ہی نہ کردیں،ایک حوالےسے ایسے والدین کو سماجی تنہائی کابھی سامناکرناپڑتاہے۔

کوئٹہ کےعلاقے سریاب سےتعلق رکھنےوالے تھیلے سیمیا کے شکار دو بچوں کے والد کا کہنا تھا کہ ضرورت کےوقت بچے کوخون کامسئلہ رہتاہے،بی ایم سی اسپتال کے تھیلے سیمیا کیئرسینٹر میں سہولیات تو موجود ہیں مگر مسئلہ خون کاہوتاہے،اس کی کافی کمی ہے،کبھی کبھارمل جاتاہے، کبھی کبھارنہیں ملتا،ایسے میں اپناڈونرہی تلاش کرکےلاناپڑتاہے۔

مستونگ سےتعلق رکھنےوالےتھیلےسیمیاکےشکاربچےکےرشتہ دار کاکہناتھا کہ انہیں مستونگ سے بچے کو خون لگوانے اور علاج کے لئے کوئٹہ آنا پڑتا ہے، اگر ان کےعلاقے میں سہولت میسر ہو تو انہیں آسانی ہوجائےگی،ان کا سفر کاخرچہ بچےگا،بلکہ انہیں بچے کے لئے خون بھی وہیں سے مل جائےگا۔

تھیلے سیمیا کے بڑھتے کیسز کےپیش نظر کوئٹہ کے علاوہ سرکاری سطح پر گوادر،تربت، بارکھان اورمستونگ میں بھی تھیلے سیمیا کیئرسینٹرز قائم کئےجارہےہیں، اس کےعلاوہ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس بیماری کی روک تھام کےلئےقانون بن چکاہے۔

قانون کےتحت نکاح خواں پابند ہوگا کہ تھیلے سیمیاکی رپورٹ دیکھنے کے بعد لڑکےاورلڑکی کا نکاح کرائے،تاہم اس سلسلے میں کوئی سزا وغیرہ تجویز نہیں کی گئی ۔