فکشن کی اخلاقیات کیا ہیں؟

May 09, 2018

فکشن کی اخلاقیات کیا ہیں ؟‘‘ اور عین اسی لمحے پوچھنے والے نے اپنا سوال یوں دہرا دیا ’’ کیا ایک فکشن رائٹر کی بھی کچھ اخلاقیات ہو سکتی ہیں؟ میں نے سوال سنا تو میرے اندر سے یہ اُلجھن چھلک پڑی کہ استفسار کرنے والا، فکشن کی اخلاقیات کا پوچھ رہا ہے یا فکشن لکھنے والے تخلیق کار کی اخلاقیات کا میرے لیے یہ دونوں ایک بات نہیں ہیں۔ فکشن نگار کا اپنے سماجی وظیفے کو ایک طرف رکھتے ہوئے کچھ اخلاقی تقاضوں کو دھیان میں رکھنا کہ جب وہ کاغذ، قلم لے کر لکھنے کی میز پر بیٹھا تخلیقی عمل سے گزر رہا ہوتا ہے،کیا ہو سکتے ہیں؟ اگریہ سوال ہے تو صاحب! میری نظر میں فقط ایک ہی تقاضاہو سکتا ہے۔ یہی کہ وہ اپنے تخلیقی عمل کے ساتھ مخلص رہے اور بس۔ گویا سوال اتنا سادہ اور سیدھا نہیں ہے۔ یہاں اِس ادیب کو ایک سماجی کارکن کے طور پر دِیکھا جا رہا ہے اور یہیں سے سوال اصل قضیے کی طرف مڑ جاتا ہے۔

یادرہےکہ ہر سماج اپنی اجتماعی ترجیحات کے اعتبار سے فطری اور تاریخی عوامل کے زیر اثر اپنی اخلاقیات مرتب کرتا ہے۔یہی اخلاقیات اس سماج کے اندرایک روح کی طرح راسخ ہو جاتی ہیں اور روایات کی سطح پر قبول کی جانے لگتی ہیں اور انہی کے زیر اثر ہمارے اعمال کا ایک رُخ متعین ہوتا ہے۔فکشن لکھنے والا بھی بہ حیثیت ایک سماجی کارکن، اسی اجتماعی اخلاقی دھارے میں بہہ رہا ہوتا ہے،جس اجتماعی اخلاقی دھارے کی میں بات کر رہا ہوں،یہ کچھ وجوہات کی بنا پر اضافی (اضافیت والا اضافی)ہو جاتا ہے۔ مثلاً:

۱۔ جس سماج میں ہم رہ رہے ہوتے ہیں، ضروری نہیں ہے کہ اس کی اخلاقیات کسی دوسرے سماج کے لیے کُلی طور پر قابلِ قبول ہوں، تاہم زیادہ رسوخ اور قوت رکھنے والا سماج ،دوسرے سماج پر اثر انداز ہوتا اور کسی حد تک قبولیت کے امکانات پیدا کرتا رہتا ہے۔

۲۔ ہر سماج کی اخلاقیات، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گدلی یا فرسودہ ہوتی چلی جاتی ہیں یا وہ اپنے خالص پن کو برقرار نہیں رکھ پاتیں۔ ان کے بارے میں خود اس سماج میں کہیں تو ایک مزاحمت موجود ہوتی ہے اور کہیں شدت پسندی کی حد تک وابستگی۔ اسی کھنچا تانی اور معاشرتی رگڑ سے تبدیل شدہ قدریں قبولیت کی سطح پر آ جاتی ہیں۔

۳۔ ہر سماج، اخلاقیات کے جس ڈھانچے کو لے کر چل رہا ہوتا ہے، وہ اپنے لیے بلندی اور پستی، اچھائی اور برائی، افادی اور غیر افادی کے معیارات خود قائم کرتاہے ۔ اس کی بنیاد مذہب بھی ہوسکتی ہے، مگر ہر سماج ان میں چھانٹ پھٹک کرکے اپنی معاشرت کا رنگ ڈال کر الگ کر لیتا ہے۔

۴۔ گناہ ثواب سے لے کر کسی بھی عمل کے افضل یا اسفل ہونے کے تصورات، آسمانی ہوں یا انسانی، سماجی تجربے سے گزر کر ہی اخلاقی پیمانہ بنتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ایک جیسی فکریا ت رکھنے والوں اور ایک ہی مذہب کے پیروکاروں کے ہاں بھی اخلاقی پیمانے مختلف ہو جاتے ہیں۔

۵۔ لطف یہ ہے کہ اس سارے عمل کے تسلسل میں رفتہ رفتہ یہ بات اہم نہیں رہتی کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں، ان کے اچھا برا ہونے ، یا جو نظریات ہمارے ہاں مرتب ہو چکے، ان کے بہترین ہونے کی منطق کیا ہے ۔ اگر کوئی منطق ہوتی بھی ہے تو وہ پیچھے رہ جاتی ہے ۔ گویا سب کچھ ایک رسم کا سا ہو جاتا ہے ۔ ایک مقام پر ایمان بھی رسم ہو جاتا ہے ۔ رسم بھی ایسی کہ ایمان کی طرح ہمارے اندر راسخ ہوتی ہے۔ ان راسخ خیالات ، نظریات اور اعمال کا بہ طور سماجی اخلاقات کے، محترم اور مقبول ہو جانا یقینی ہوتا ہے ۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ فکشن اور اخلاقیات والا سوال جب میرے سامنے آیا تو اس پر اُلجھنے کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ جب جب ادیب کی سماجی یا اخلاقی ذمہ داری کا سوال اٹھایاجاتا ہے تو بہ ظاہر بہت دلکش اور لائقِ توجہ یہ سوال مجھے اپنے اندر ایک خرابی اور گمراہی سمیٹے نظرآیا ہے۔

یوں لگتا ہے کہ ادیب سے اسی اخلاقی نظام کا ایک مثالی نمائندہ ہونے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ اس سماجی اخلاقیات کا نمائندہ ، جس کی نمائندگی کا تخلیقی عمل کے دوران وہ مکلف نہیں ہے ۔اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ ادب ،سماج سے کٹ کر لکھا جا سکتا ہے یا یہ محض ایک لسانی کارکردگی ہوتا ہے، جو کہیں فضا میں یا خلا میں وقوع پذیر ہو رہی ہوتی ہے۔ تہذیب، سماج اور روایات کا تعلق محض معاشرے کی سطح پر رواں لہروں اوروہاں اٹھنے والے اُبال سے نہیں ہوتا۔ یہ بہت گہرائی میں بن چکے اس مزاج سے عبارت ہے، جو کہیں صدیوں میں جاکر زمین، زبان، روایات اور عقائد سب مل کرمرتب کرتے ہیں۔ یہاں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ادب ،بنیادی طور پر تہذیبی مظہر ہوتا ہے۔ لکھنے والا جب کوئی افسانہ، ناول، غزل یا نظم لکھ رہا ہوتا ہے تو اس کی روح عین اسی لمحے میں اپنی تمام تر لطافت کے ساتھ، اس تہذیبی معبد میں موجود ہوتی ہے، تاہم یہ بات خاطر نشاں رہے کہ تخلیق کے دورانیے میں ادیب کا ذاتی جوہر ہمیشہ مقدم رہتا ہے۔ وہ، جو فیض نے کہا تھاکہ:’’آرٹ کی قطعی اور واحد قدر، محض جمالیاتی قدر ہے‘‘ تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہ قدر اس کی اخلاقیات کی بنیاد بھی ہے۔

بہادری معاشرتی قدر ہو سکتی ہے، اس کے سپاہی کا اپنے وطن کے لیے جان قربان کر دینا ایک بڑی قدر سہی، مگر ایک ماں کے اندر قربان ہونے والے بیٹے کے لیے وہ جو دُکھ کی لہر اٹھتی ہے، وہ اس سے بھی بڑی قدر ہو سکتی ہے اور ایک فکشن نگار اس قدر کو دشمن کی ماں کے دِل کے اندر جھانک کر بھی اپنے متن میں گوندھ سکتا ہے۔ فکشن نگار کی اپنی ترکیب میں یہ وصف موجود ہوتا ہے کہ وہ سماجی اخلاقیات کے جبر کو توڑتا ہے، اس کی رسمیات سے نکلتا ہے اور دانش کے دائروں کو وسعت دیتا ہے۔ا سٹیٹس کو،کو تسلیم نہیں کرتا۔ ظلم اور ظالم دونوں سے نفرت کرتا ہے اور ہر بار مظلوم کے ساتھ جاکھڑاہوتا ہے اور یہی فکشن کی اخلاقیات ہیں اورمجموعی طور پر ادب کی بھی۔