پاکستانی ڈرامہ کے سنہری دور کا احوال

May 11, 2018

80 کی دہائی میں پیٹی وی پر نشر ہونے والے پاکستانی ڈرامے اپنی مثال آپ تھےاور ان ڈراموں کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی۔ان کہی،اندھیرا اجالا۔تنہائیاں،الف نون ، ہوائیں،ایلفا براوہ چارلی،راہیں،دھواں،عینک والا جن وغیرہ آج بھی لوگوں کو یاد ہیں،اوریہ ڈرامے آج بھی دنیا بھر میں انٹرنیٹ کی بدولت دیکھے جاتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کو دنیا بھر میں منفرد حیثیت حاصل ہےپرائیوٹ چینلز کے آجانے سےاس انڈسٹری کو اب بھی دنیا بھر میں جو مقام حاصل ہے وہ کسی اور ملک کی ڈرامہ انڈسٹری کو حاصل نہیں۔ ٹی وی چینلز پر بیک وقت کئی اچھے ڈرامے نشر ہوتے رہے ہیں، جو نہ صرف پاکستان کے سماجی حالات کی عکاسی کرتے تھے بلکہ وہ ناظرین کو بھی اپنے سحر میں مبتلا کر دیتے تھے ۔ ان ڈراموںکے رائٹرز کی بات کی جائے تو خواتین رائٹرز نے کمال ڈرامے تحریر کیے ہیںاور ایسے شاہکار ڈرامے کہ جب وہ آن ایئر جاتے تھے تو سڑکیں سنسان ہو جاتی تھیں۔ ان میں سے کچھ معروف خواتین ڈرامہ رائٹرزکا احوال حاضر خدمت ہے۔

فاطمہ ثریا بجیا

یکم ستمبر 1930 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہونے والی فاطمہ ثریا بجیا مقبول ترین ڈرامہ رائٹر تھیں، ان کے لکھے گھریلو ڈرامے ہر دور میں سب کی پسند رہے ہیں۔

انہوں نے ٹیلی وڑن کے علاوہ ریڈیو اور اسٹیج پر بھی کام کیا جبکہ سماجی اور فلاحی حوالے سے بھی ان کے کام قابل قدر ہیں، ان کا خاندان بھی ادبی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ان کی ٹیلی وژن کی دنیا میں آمد محض اتفاقاََ ہوئی تھی جب1966 میں کراچی جانے کے لیے ان کی فلائٹ تعطل کا شکار ہوئی تو وہ اسلام آباد پی ٹی وی سینٹر کسی کام سے گئیں وہاں اسٹیشن ڈائریکٹر آغا ناصر نے ان سے اداکاری کے ذریعے پہلا کام کروایا، اس کے بعد انہوں نے ڈرامہ نگاری کے ذریعے اس ادارے سے اپنا تعلق استوار کیا۔

ان کے بیشتر ڈرامے جیسے شمع، افشاں، عروسہ اور انا بہت بڑی کاسٹ اور بڑے خاندانوں کے مسائل کی بہترین عکاسی کرتے رہے ہیں جبکہ انارکلی، زینت، آگہی، بابر اور سسی پنوں ان کے مقبول ترین ڈراموں میں سے چند نام ہیں۔

1997 میں ان کو حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا اس کے علاوہ انہیں کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں جاپان کا اعلیٰ سول ایوارڈ بھی شامل ہے۔2012 میں ان کو صدر پاکستان کی طرف سے ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔انہوں نے سندھ حکومت کی مشیر برائے تعلیم کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں جبکہ ان کے خاندان میں اور بھی مشہور شخصیات ادبی دنیا میں مصروف عمل ہیں ۔

نورالہدیٰ شاہ

نورالہدیٰ شاہ 22 جولائی 1957 ء کو سندھ کے شہر حیدر آباد میںپیدا ہوئیں ۔ یہ ان سندھی ڈرامہ نگاروں کی ٹیم میں شامل تھیں جو 1980ءتا 1990 ء کےدوران ٹی وی انڈسٹری میں آئی اور اردو ڈرامے لکھ کر ملکی سطح پر سندھی کلچر کو پورے ملک میں متعارف کروایا۔

نور الہدیٰ شاہ صف ِ اول کی اردو اور سندھی کی افسانہ نگار اور ناول نگار، خوبصورت باتیں کرنے والی دانشور بھیڑ بھاڑ سے الگ تھلگ زندگی گزارنے والی شخصیت ہیں۔ انہوںنے بچپن سے ہی کم عمری میں چھوٹی چھوٹی کہانیاں اور مضامین لکھنے شروع کردیے تھےاور اپنے خیالات کو شعروشاعری کی زبان میںڈھال لیاتھا۔ ان کی مختصر کہانیو ںکی کئی کتابیں اور ایک ناول ’’ جلا وطن ‘‘ شایع ہو چکاہے۔ نورالہدیٰ نے سندھی ڈرامہ سیریز ــ’’ ناٹک رنگ ‘‘ کیلئے کئی ڈرامے لکھے۔اس سیریز میںانہوں نے کئی چبھتے ہوئے موضوعات پر کہانیاںلکھ کر معاشرے کو چونکا دیا تھا۔

ان کے ڈراموںمیںعورت کا وجود ، اس کا احساس اور اس کی دبی ہوئی آواز کی گونج سب کو محسوس ہوتی ہے۔ ان کے مشہور ڈراموں میںجنگل، تپش، حوا کی بیٹی، آسمان تک دیوار، آدم زادے ، ماروی، عجائب خانہ ، بے باک ، میری ادھوری محبت ، ادھورا ملن ، عشق گمشدہ اور فاصلے شامل ہیں۔ ان میںسب سے زیادہ مقبول ڈرامہ جنگل تھا، جس میں انہوں نے وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ سماج کی پولیں اور ناظرین کی آنکھیںکھول دی تھیں۔ نورالہدیٰ شاہ کومتعدد غیر سرکاری اعزازات مل چکے ہیں۔ 2008 ء میں ان کی ادبی خدمات کے حوالے سے حکومت پاکستان نے انہیںپرائڈ آ ف پرفارمنس سے نوازا تھا۔

حسینہ معین

حسینہ معین 20 نومبر 1941 کو ہندوستان کے شہر کانپور میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے اور تقسیم ہند کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئیں۔ وہ طویل عرصہ راولپنڈی میں رہیں، پھر لاہور چلی گئیں اور 1950 میں کراچی میں مقیم ہوگئیں۔ انہوں نے جامعۂ کراچی سے 1963 میں تاریخ میں ماسٹر کیا۔

انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے بہت سے یادگار ڈرامے لکھے جن میں شہزوری، زیر زبر پیش، انکل عرفی، ان کہی، تنہایاں، دھوپ کنارے، دھند، آہٹ، کہر، پڑوسی، آنسو، بندش، آئینہ جیسے مشہور ڈرامے شامل ہیں ۔ انہیں پی ٹی وی کا مقبول ترین رائٹر رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

عمیرہ احمد

ایک پاکستانی ادیبہ اور اسکرین رائٹر جو اپنی کتاب پیر کامل کی بدولت مشہور ہوئیں اور پھر اپنے متعدد ناولوں پر مبنی ٹی وی ڈراموں سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچیں- ان کے ناولوں پر بننے والے ڈراموں میں میری ذات ذرہ بے نشاں، دوراہا،پیر کامل، مٹھی بھر مٹی، شہرذات، میرا نصیب اور زندگی گلزار ہے شامل ہیں- عمیرہ احمد مرے کالج سیالکوٹ سے انگریزی میں ماسٹرز کر کے آرمی پبلک کالج کے کیمبرج ونگ سے منسلک رہیں۔

اپنے تحریری سفر کا آغاز انھوں نے خواتین کے ماہناموں سے کیا اور پھر ٹی وی انڈسٹری میں آ گئیں- ان کا پہلا ڈراما ‘‘وجود لاریب‘‘ تھا جو 2005 میں نشر ہوا۔ جس کے لیے انہوں نے بیسٹ رائٹر کا ایوارڈ لیا۔ اس کے بعد ‘‘دام‘‘، ‘‘قید تنہائی‘‘ اور متعدد ڈرامے لکھ چکی ہیں اور ان کے کئی ناولوں کی ڈرامائی تشکیل ہو چکی ہے۔