صوبہ جنوبی پنجاب کی پرانی شراب

May 14, 2018

انتخابات قریب آتے ہی نت نئے چورن اور منجن بیچنے والوں کی بھیڑ لگ گئی ہے ۔پانچ برس خاموش رہنے والے پھیری والوں کی طرح گلے پھاڑ پھاڑ کر آوازیں لگا رہے ہیں ،نقالوں سے ہوشیار رہیں ہماری کوئی اور برانچ نہیں۔ یوں تو بازارِسیاست میں انواع و اقسام کے لالی پاپ ،چوسنیاں ،شربت،معجون اور سفوف دستیاب ہیں مگراحساس محرومی دور کرنیوالا ’’شربتِ فولاد‘‘ بیچنے والوں کا مال دھڑا دھڑ فروخت ہورہا ہے جبکہ اسی کمپنی کی ایک اور پروڈکٹ ’’نئے صوبے‘‘ بھی لانچ ہو چکی ہے اور صوبہ جنوبی پنجاب کی نہایت پرانی شراب نئی بوتل میں ڈال کر متعارف کروانے والے بہت ’’رش‘‘ لے رہے ہیں اس کے پیچھے شاید یہ فلسفہ ہے کہ شراب جتنی پرانی ہو اتنی ہی نشیلی اور بھرپور ہوتی ہے ۔اسلام آباد اور لاہور میں بیٹھے تجزیہ نگار تو نئی نویلی بوتل میں پُرانی شراب سے دھوکہ کھا سکتے ہیں لیکن میرا تعلق چونکہ ملتان کی تحصیل شجاع آباد سے ہے اور میں اس خطے کے زمینی حقائق سے تھوڑی بہت شناسائی رکھتا ہوں اسلئے مجھے یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ کی پرانی شراب نئی بوتل میں متعارف کروانے والوں کی حقیقت کیا ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ ان کی بوتل میں سرے سے شراب ہے ہی نہیں ناں نئی ناں پرانی ،انہوں نے ذاتی مفادکی کھانسی کے سیرپ میں تبدیلی کی پھکی مکس کرکے اسے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا نام دے دیا ہے ۔اگر ان میں سے کسی کو ’’تختِ لاہور‘‘ سے کوئی مسئلہ ہوتا تو یہ صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں آواز اٹھاتے کہ دوصوبوں سے متعلق جو قراردادیں پنجاب اسمبلی سے منظور ہوئی تھیں انہیں داخل دفتر کیوں کر دیا گیا ہے؟مگر یہ پانچ برس گونگے بہرے بن کر بیٹھے رہے ۔
یوں توپورے ملک میں ہی لوٹا اِزم کا رجحان ہے اور پی ٹی آئی نے اب وکٹ گرانے کی اصطلاح متعارف کروا کے اس فن کو نئی جہت بخشی ہے ۔لیکن جنوبی پنجاب کے وہ ارکان اسمبلی جو سرائیکی وسیب کے حقوق کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں ،ان کا سب سے نمایاں ’’وصف‘‘ یہ ہے کہ ہر مرتبہ کسی نئے انتخابی نشان سے الیکشن لڑتے ہیں ۔مثال کے طور پر ملتان کا حلقہ NA152 جہاں سے اب سید جاوید علی شاہ مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے ہیں یہاں سے 2002ء کے انتخابات میں اسدمرتضیٰ گیلانی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے ۔سید جاوید علی شاہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار تھے جبکہ نواب لیاقت علی خان جو 1997ء میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے تھے انہوں نے یہ الیکشن مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر لڑا۔ 2008ء کے انتخابات کا بگل بجا تو اسد مرتضیٰ گیلانی نے تیر کے بجائے شیر کا انتخابی نشان لے لیا ،جاوید علی شاہ کے بھائی (کزن)سید مجاہد علی شاہ نے مسلم لیگ (ق) یعنی سائیکل کے انتخابی نشان پر لڑنے کا فیصلہ کیا ،ابراہیم خان آزاد امیدوار تھے جبکہ نواب لیاقت علی خان دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی ٹرین میں سوار ہو گئے اور قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہونے میں کامیاب بھی ہو گئے ۔2013ء کے عام انتخابات میں آزاد امیدوار ابراہیم خان پی ٹی آئی کے امیدوار بن گئے ،سید جاوید علی شاہ نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا جبکہ اسد مرتضیٰ گیلانی نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا ۔اب صورتحال یہ ہے کہ اسد مرتضیٰ گیلانی وفات پا چکے ہیں،نواب لیاقت علی خان جو کینیڈین نیشنل ہیں اور پی ٹی آئی کی ٹرین میں سوار ہونا چاہتے تھے ،غیر ملکی شہریت چھوڑنے کا حوصلہ نہیں کر پائے اور انکی ٹرین چھوٹ گئی ہے ۔
این اے 153کی کہانی اس سے بھی کہیں زیادہ دلچسپ ہے ۔2002ء کے عام انتخابات میں جب مسلم لیگ(ن) زیر عتاب تھی تو دیوان جعفر حسین بخاری مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر یہاں سے ایم این اے منتخب ہوئے ۔اس الیکشن میں رانا قاسم نون جو پہلے اپنے بھائی رانا سہیل نون کیساتھ پیپلز پارٹی میں شامل رہے تھے ،مسلم لیگ (ق) کے امیدوار تھے ۔بعد ازاں بلدیاتی انتخابات میں ان کے بھائی رانا سہیل نون جو سابق ایم پی اے بھی ہیں ،مسلم لیگ (ق) کے امیدوار کی حیثیت سے تحصیل ناظم منتخب ہو گئے ۔2008ء کے انتخابات کا بگل بجا تومسلم لیگ (ن) نے دیوان سید جعفر حسین کو ٹکٹ دیا ،رانا قاسم نون نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لیا مگر دیوان سید عاشق حسین بخاری مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر رُکن قومی اسمبلی منتخب ہو گئے ۔رانا قاسم نون جو ایک ہزار ووٹوں کے مارجن سے ہار گئے تھے انہوں نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کیا مگر جب صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 206کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے نغمہ مشتاق لانگ کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا تو پینترا بدل کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ۔یہ ضمنی انتخاب بھی نہایت تاریخی اہمیت کا حامل رہا ۔سابق ایم پی اے ملک مشتاق لانگ مرحوم کی بیوہ نغمہ مشتاق لانگ 2008ء میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئیں ،مخالف امیدوار نے ان کی ڈگری چیلنج کی تو استعفیٰ دیدیا اور ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن)کے ٹکٹ پر حصہ لیا ۔مسلم لیگ (ن) نے نغمہ کو ٹکٹ تو دیدیا تو لیکن یہ نشست انڈرسٹینڈنگ کے نتیجے میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بھائی مجتبیٰ گیلانی المعروف مجو سائیں کو تحفے میں دیدی۔بہرحال 2013ء کے انتخابات کا اعلان ہواتو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 153پر امیدوار ایک بار پھر بدل گئے ۔ اس بار دیوان عاشق حسین بخاری سائیکل کے بجائے شیر کے انتخابی نشان کیساتھ میدان میں اترے اور کامیاب ٹھہرے ۔رانا قاسم نون جو اس بار تیر کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑ رہے تھے ،ایک بار پھر ہار گئے ۔اس دوران رانا قاسم نون نے دیوان عاشق حسین بخاری کی ڈگری چیلنج کی ۔یہ نشست خالی ہوگئی اور ضمنی انتخاب کا مرحلہ آیا تو رانا قاسم نون آگے آگے اور پی ٹی آئی ان کے پیچھے پیچھے دکھائی دی ۔کئی بار خبریں آئیں کی رانا قاسم نون نے بلے کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔رانا قاسم نون شجاع آباد سے نکلے تو شاہ محمود قریشی ،اسحاق خاکوانی اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنمائوں نے دعویٰ کیا کہ وہ بنی گالا میں عمران خان سے ملاقات کرکے شمولیت کا اعلان کریں گے لیکن قرعہ فال مسلم لیگ (ن) کے نام نکل آیا اور رانا قاسم نون نے رائے ونڈ جاکر شیر کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا اور جیت بھی گئے ۔چونکہ ماضی میں وہ تمام سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑ چکے ہیں اسلئے اب پی ٹی آئی ان کا اگلا مستقر ہے۔
این اے 194رحیم یار خان سے منتخب ہونے والے خسرو بختیار کا سیاسی سفر بھی اس سے ملتا جلتا ہے ۔2002ء میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے ،2008ء کا الیکشن سائیکل کے انتخابی نشان پر ہار گئے تو 2013ء میں تمام راستے کھلے رکھنے کے لئے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن جیتنے کے بعد مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے ۔این اے 190بہاولنگر سے طاہر بشیر چیمہ اور این اے 179مظفر گڑھ سے مخدوم زادہ باسط بخاری کی بھی یہی کہانی ہے ۔ این اے 169وہاڑی سے طاہر اقبال چوہدری پہلی بار 2013ء میں آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن جیتے اور مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے ۔نئے صوبے ضرور بننے چاہئیں لیکن آپ خود ہی بتائیں،جو ہوا کا رُخ دیکھ کر اپنی سمت متعین کرتے ہیں وہ کیا خاک نیا صوبہ بنائیں گے ؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)