رمضان ،اتحاداور لیڈر…

May 21, 2018

رابطہ …مریم فیصل
رمضان کے مبارک مہینے کا آغاز ہو گیا ہے ۔بے شک یہ ایک ایسا اسلامی مہینہ ہے جو دیار غیر میں رہ کر بھی پوری طرح اپنے آنے کا پتا دیتا ہے ہم سوچتے ہیں کہ اگر ہم ابھی بھی پاکستان میں رہتے تو اس ماہ مبارک کا پتہ ہر کونے سے چلتا ہر مسجد سے سحری اور افطاری کے اوقات میں اذان کی صدا ئیں بلند ہوتیں ۔سحری اور افطاری کے لئے خصوصی پکوان پکتے گھروں میں جن کی مہک ہر سو پھیلتی ۔ تراویح کے وقت مساجد میں رش اور رمضان کے اختتام کے قریب عید کی تیاریوں کے لئے ہونے والا رش۔ غرض ہر شے تیری آمد کا پتا دیتی۔لیکن طویل اوقات کے روزوں کے باوجود ہم برطانیہ میں بھی رمضان کا جوش و خروش موجو پاتے ہیںیہاں بھی عبادت کا اہتمام ہوتا ہے ۔ سحری کی سویاں اور افطار کے پکوڑے یہاں بھی تیار ہوتے ہیں اور اب کی بار تو ایک ساتھ روزے رکھنے کی خوشی بھی نصیب ہوئی ہے اور پاکستان سے بھی یہ خبر آئی ہے کہ چاند نظر آگیا ہے ایک ہی ساتھ رمضان کا آغاز ہوا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ سحری وافطاری کے اوقات میں اختلاف ہونے کے باعث کمیونٹی پریشان ہے ۔خصوصا برطانیہ کے بڑے شہروں میں جہاں مسلمان کمیونٹی کی تعداد بھی زیادہ ہے وہاں پانچ، سات مساجد ہیں اور ہر مسجد نے اپنا ٹائم ٹیبل بنا لیا ہے وہاں یہ تشویش زیادہ دیکھنے میں آرہی ہے ۔اس پر بھی ایک ہونے کی ضرورت ہے کہ جب اتحاد ہو تو پوری طرح ہونا چاہئے۔ اس مبارک مہینے کی آمد کے ساتھ ہی مسلمانوں کے دکھ بھی یاد آگئے ہیںشام آج بھی جل رہا ہے ۔اپنے ہی لیڈروں اور ملکوں کے ہاتھوں تباہ ہورہا ہے ۔پانچ لاکھ مسلم شامیوں کا قتل عام اور ایک کروڑ سے زیادہ مہاجرین ۔دل خون کے آنسو روتا ہے کاش مسلم حکمرانوں کو خدا کا خوف آ ّجائے اور وہ اقتدار کے نشے میں اندھے ہوکر اپنے ہی بھائیو ں کے قتل عام کو بند کریں مخلوق کو راضی کریں اور اللہ کو بھی ۔فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم بند ہوانہیں ان کا جائز حق ملے ۔ اسی مہینے میںہی چھوٹے پرنس ہیری بھی امریکی اداکار ہ میگھن کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے ہیں۔ اس شادی سے متعلق کہا جارہا ہے کہ برطانیہ کے ملٹی کلچرل ملک ہونے کو مزید تقویت ملی ہے کیونکہ میگھن کا تعلق ایسی فیملی سے ہے جو سفید اور سیاہ فام کا مکسچر ہےاور یہ اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ شایداب اس ملک میں رنگ اور ثقافت کی تفریق بالکل ہی مٹ جائے ۔ آگے بڑھے تو ایک بار پھر 93سالہ مہاتر محمد ملائیشیا کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے ہیں۔وہ پہلے بھی ملائیشیا کے سب سے طویل مدتی وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور ان کی وزرات میں ہی آج کے موجودہ ترقی یافتہ ملک کا وجودہ ہو ا ہے ۔ اپنے دور اقتدار میں مغرب کی جانب سے خاصی تنقید کا سامنا کر تے رہے ہیں لیکن اپنے با کمال انداز اسے انھوں نے مغرب سے تلخ تعلقات کو ملک کی ترقی میںاثرانداز نہیں ہونے دیا بلکہ امریکہ اور یورپی خطے سے اچھے مراسم بنائے رکھے جس سے ملایشیا کی موجودہ ترقی کی سنگ بنیاد رکھ دی گئی ۔ملک کی ترقی کے لئے تعلیم کو انتہائی اہم سمجھا اور ترقی کے ستونوں میں اسی کو سب سے مضبوط ستون بنا یا کیونکہ ایک جہاںدیدہ لیڈر کے بطور وہ تعلیم کی اہمیت کو خوب سمجھتے تھے ۔ اور اسی لئے تعلیمی میعار کو بہتر سے بہتر بنانے پر بھرپور توجہ دی ۔ آج ملائیشیا میں ہائی سکول کی تعلیم مفت اور جامعات میں بھی نوئے فیصد اخراجات حکومت کی جانب سے ادا کئے جاتے ہیں ۔ مہاتر محمد نے تعلیم کے ساتھ معاشی استحکام کو بھی مد نظر رکھا اور آج اس کی مضبوطی کااندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ملایشین پاسپورٹ دنیا کے پانچ مضبوط پاسپورٹوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ مہاتر محمد کی جتنی بھی تعریف لکھی جائے کم ہے لیکن یہ ضرور کہنا پڑتا ہے کہ ہر ترقی پزیر ملک کو ایسے ہی لیڈر کی ضرورت ہے جو عوام اور ملک کی ترقی کے لئے ایک سمت کا تعین کر کے چلے تو کوئی وجہ نہیں کہ ترقی اس ملک کا نصیب بن جائے ۔