لالی وڈ کی ’جٹیاں‘

May 22, 2018

فلم کے بعد فردوس کامیاب ہیروئنوں کی صف میں شامل ہوگئیں۔ فردوس نے چاچا جی، دو مٹیاراں، اک سی ماں ، جنٹر مین، ماں پتر، اے پگ میرے ویر دی، پیدا گیر، دشمن ، دلدار، تہاڈی عزت دا سوال اے، حمیدا، بیٹی بیٹا، عشق نہ پچھے ذات، قول قرار ، جوانی مستانی، چن ویر، جگو، خون دا بدلہ خون، پگڑی سنبھال جٹا ، ہیرا موتی، بنارسی ٹھگ، اک دھی پنجاب دی ، سجن دشمن ، جاپانی گڈی، دنیا مطلب دی ، دلاں دے سودے، شیراں دے پتر شیر، ناجو، سجناں دور دیا، غیرت میرا ناں ، پنڈ دی کڑی ، پیار دے پلیکھے، پنج دریا، مرزا جٹ، مراد بلوچ، یار تے پیار اور کلاسک فلم کا درجہ حاصل کرنیوالی فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ ان کے کریڈٹ پر ہے۔اس فلم میں اعجاز نے (رانجھا) اور فردوس نے (ہیر) کا کردار نبھایا جو فلموں بینوںاور ناقدین کے دل ودماغ پر چھا گیا۔ 1976 میں ایک دفعہ فردوس نے فلم انڈسٹری کو خیرباد کہہ دیا لیکن 8 سال بعد 1984 میں وہ دوبارہ فلم انڈسٹری میں آئیں اور دو فلموں ’’یہ کیسے ہوا‘‘ اور ’’ہٹلر‘‘میں کام کیا لیکن یہ فلمیں کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔

آسیہ:

‘‘مولا جٹ کی مکھو جٹی’’ آسیہ بیگم نے جب انڈسٹری میںدھوم مچائی تو بلیک اینڈ وائیٹ دور میں بھی سب اس کی جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب ہوتے تھے لیکن اس نے آخری ایام کیمرے کی چمک دمک سے دورگزارے۔ اس پری چہرہ نے اپنی اداکاری کادیوانہ تو سب کو پہلے ہی کردیاتھا لیکن جب فلموں میں کلب ڈانسر کے طور پرجلوہ گر ہوئی توشائقین اس کے رقص کی تعریف کئے بغیر بھی نہ رہ سکے۔وہ 1951میں بھارتی پنجاب میں پیدا ہوئیں، پاکستانی فلم انڈسٹری میں ‘‘پری چہرہ’’ کے نام سے مشہور آسیہ کا اصل نام فردوس تھا۔ریاض شاہد نے ان کو اپنی فلم’’غرناطہ‘‘ میں کام کرنے کاموقع دیا۔وہ اس کردار کے لئے پہلے اداکارہ عالیہ کو لینا چاہتے تھے لیکن یہ کردار آسیہ کے حصے میں آگیا۔ ہدایتکار شباب کیرانوی نے انہیں اپنی فلم’’انسان اور آدمی‘‘میں اداکار طلعت حسین کے ساتھ ہیروئن کاسٹ کرلیا اس فلم میںمحمد علی اور زیبا کا مرکزی کردار تھا۔ یہ فلم چند ماہ میں مکمل کرکے نمائش کے لیے پیش کردی گئی ۔ فلم بے حد کامیاب رہی اور گولڈن جوبلی سے ہمکنار ہوئی۔1971 میںاس کو فلم’’دل اور دنیا‘‘جیسی فلم میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس فلم میںآسیہ نے اندھی لڑکی کا کردار کیاتھا۔ہدایتکار رنگیلا کو ایسی لڑکی کی تلاش تھی جس کے چہرے سے جذبات کی عکاسی ہوتی ہو۔بالآخر آسیہ اندھی لڑکی کے کردار کے لئے فائنل ہوگئی۔ انہوں نے ایک نابینا لڑکی کا کردار ادا کیا جو سڑکوں اور گلیوں، بازاروںمیںپھولوں کے گجرے بیچ کر اپنا گزار ا کرتی ہے۔ اس فلم میں آسیہ ہیروئن تھیں اور ان کا ڈبل کردار تھا ۔ ایک طرف رنگیلا، اور دوسری طرف حبیب ان کے ہیرو تھے ان پر گلوکارہ رونا لیلیٰ کی آواز میں گانا

’’چمپا اور چنبیلی یہ گلیاں نئی نویلی ‘‘

آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔انہوں نے 90ء کی دہائی میں ایک بزنس مین سے شادی کر لی اور بعد ازاں کینیڈا میں مقیم ہو گئیں۔ آسیہ نے فلم انڈسٹری خود چھوڑنے کی روایت ڈالی ۔ اردو اور پنجابی بولنے میںماہر تھیں ۔ان کی ہم عصر اداکارائوں میں عالیہ ،چکوری اورنجمہ کے نام شامل ہیں ۔ آسیہ بیگم نے لگ بھگ 200 سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے ۔انہیں 1977 میںفلم’’قانون‘‘ کی وجہ سے بہترین اداکارہ اور 1979 میں’’آگ‘‘ کی وجہ سے بہترین معاون اداکارہ کے نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔آسیہ آج اس دنیا میں نہیں لیکن ان کافن ہمیشہ زندہ رہے گا۔

مسرت نذیر:

مسرت نذیر پاکستان فلم انڈسٹری کی وہ لیجنڈ گلوکارہ وادا کارہ ہیں جنہوں نے دونوں شعبوں میں اپنی انفرادیت کو ثابت کیا بلکہ پنجابی فلموں کی پہلی مقبول ترین جٹی ہونے کا منفرداعزاز بھی انھیں حاصل ہے۔1955میںانور کمال پاشا کی فلم ’’قاتل‘‘ میں چاندنی کے نام سے کیرئیر شروع کیا۔ جس میں ان کی پرفارمنس کو دیکھتے ہوئے فلمساز شیخ لطیف نے انہیں پنجابی فلم ’’پتن‘‘ میں سنتوش کمار کے مقابل ہیروئن سائن کرلیا۔ جس کے ڈائریکٹر لقمان تھے۔ یہ فلم سپرہٹ ہوگئی اور اس میں چاندنی کی بجائے اصلی نام مسرت نذیر سے کام کیا۔پنجابی فلم ’’پتن‘‘کی شاندار کامیابی نے اس پر فلمی انڈسٹری کے دروازے کھول دئیے اور انھیں مقبول اداکارہ بنادیا۔باری ملک کی ’’ماہی منڈا‘‘ اور’’ یکے والی‘‘ جیسی سپرہٹ فلموں سے قبل پنجابی فلم ’’پاٹے خان‘‘ میں بھی اسلم پرویز اور ملکہ ترنم نورجہاں کے مقابل اہم کردار کیا تھا۔ انھوں نے ’’پینگاں‘‘ ، ’’قسمت ‘‘ ، ’’نیا زمانہ‘‘ ، ’’ چٹی یا جٹی‘‘ ، ’’سوسائٹی‘‘ ، ’’باغی‘‘، ’’جان بہار‘‘ ، ’’یار بیلی‘‘ ، ’’کرتار سنگھ‘‘ ، ’’زہر عشق‘‘ ، ’’آنکھ کانشہ‘‘ ، ’’شہید‘‘، ’’وطن‘‘، ’’راز‘‘، ’’سولہ آنے‘‘، ’’اسٹریٹ 77‘‘،’’گڈا گڈی‘‘، ’’سیستان‘‘ ، ’’سہار، ’’رخسانہ‘‘، ’’نوکری‘‘ ، ’’باپ کا گناہ‘‘ ، ’’ٹھنڈی سڑک‘‘، ’’پلکاں‘‘، ’’سہتی‘‘ ، ’’مرزا صاحباں‘‘ ، ’’جھومر‘‘، ’’عشق پر زور نہیں‘‘، ’’منگول‘‘ ، ’’مفت بر‘‘ ، ’’گلفام ‘‘ سمیت دیگر فلموں میں کام کیا۔انہوں نے شادی کے بعد اداکاری تو ترک کردی مگر گلوکاری کا دیرینہ شوق جاری رکھا۔ان کے کریڈٹ پر ’’میرا لونگ گواچا‘‘ ، ’’چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر ‘‘، ’’لٹھے دی چادر اتے سلیٹی رنگ ماہیا‘‘ ، ’’چٹا کوکٹر بنیڑے تے ‘‘ جیسے گانے ہیں۔’ میرا لونگ گواچا ‘تو اتنا سپرہٹ ہوا تھا کہ پاکستان کی متعدد فلموں میں اس گانے کو اداکارہ انجمن پر فلمایا گیا۔

رانی:

اداکارہ رانی کا اصل نام ناصرہ تھا جنھوں نے ہدایتکار انور کمال پاشا کی فلم ’’محبوب‘‘ سے کام شروع کیا ، جس کے بعد ’’شطرنج‘‘، ’’چھوٹی امی ‘‘، ’’عورت کا پیار‘‘ اور’’چھوٹی بہن‘‘ میں کام کیا لیکن یہ فلمیں باکس آفس پر کامیاب نہ ہوسکیں ۔ ہدایتکار کیفی کی ڈائریکشن میں گلوکار واداکار عنایت حسین بھٹی کے ساتھ ’’جند جان‘‘، ’’کوچوان‘‘،’’دنیا مطلب دی‘‘ سمیت دیگر فلموں میں کام کیا لیکن وحید مراد اور شاہد کے ساتھ ان کی جوڑی ہٹ ہوئی۔

نادرہ:

اداکارہ نادرہ کو ہدایتکار یونس ملک نے 1986 میں اپنی فلم ‘آخری جنگ‘‘ میں متعارف کرایا۔وہ بہت جلد فلم شائقین کے دلوں میں گھر کر گئیں۔ 6 اگست 1995 کی شام لاہور کی معروف مارکیٹ میں نامعلوم ڈاکوؤں نے ڈکیتی کی واردات کے دوران فائرنگ کرکے نادرہ کو قتل کردیا۔

انجمن:

انجمن پنجابی فلموں کی ایک ممتاز اداکارہ تھیں۔ انہوں نے1980 سے 1990 کے دوران بننے والی پاکستانی فلموں میں نمایاں اداکاری کی۔ انجمن کا اصلی نام انجمن شاہین اور وہ بہاولپور میں پیداہوئیں۔ ان کے والدین ہجرت کرکے احمدپور شرقیہ، ملتان منتقل ہو گئے۔ بعد ازاں انہوں نے ملتان سے لاہور کو ہجرت کی۔ اپنے گھرانے میں سے انجمن کے ساتھ ساتھ اس کی چھوٹی بہن گوری نے بھی فلمی میدان میں کامیابی حاصل کی۔ انجمن نے اردو فلم صورت 1973 سے اپنے فلمی سفر کی شروعات کی۔1973 میں اردو فلموں سے آغاز کرنے کے بعد انجمن نے2000 میں آخری پنجابی فلم ’’پینگاں‘‘ میں اداکاری کی۔