تراویح میں تلاوت کردہ قرآن کریم کی پارہ بہ پارہ تفہیم

May 24, 2018

فہم القرآن:مفتی عبدالمجید ندیم
ولو اننا …پارہ۸
ساتویں پارے کے آخر میں منکرین حق کے با رے میں ارشاد فرما یا گیا ہے کہ ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو اس طرح الٹ پھیر سے گذارتے ہیں کہ وہ ایما ن لانے کے لیے تیار نہیں ہو تے اور وہ اپنی سرکشی میں مسلسل سرگرداں رہتے ہیں۔ آٹھویں پارے کا آغاز اسی مضمون کو مزید آگے بڑھا تا ہے کہ جو لوگ ایما ن نہیں لا نا چا ہتے ان کے پاس آسما ن سے فرشتے بھی آ جا ئیں اور مردے ان سے ہم کلا م ہو نے لگیں تب بھی یہ لو گ ماننے کے لیے تیا ر نہیں ہوں گے ۔اس لیے کہ انکار ان کی فطرت کا حصہ بن چکا ہے ۔نبی اکرم ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہےکہ آج اگر کفار آپ کی مخا لفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں تو گھبرانے کی کو ئی ضرورت نہیں ۔اس سے پہلے بھی ہر زما نے میں شیاطینِ جن و انس انبیا ء کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے ہیں لیکن تاریخ کی یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ انہیںہمیشہ منہ کی کھا نی پڑی اور کامیابی اللہ کے انبیا ء ہی کو حاصل ہو ئی ۔دین میں اصولوں کی پاسداری کی جا ئے گی یہ نہیں دیکھا جا ئے گا کہ اکثریت کس کے ساتھ ہے ۔اسلا م میںایسی مادر پدر آزاد جمہوریت کی کو ئی گنجا ئش نہیں ہے جو کسی اصول و ضابطے کی پابند نہ ہو ۔اسلا م میں حلا ل و حرام کے اصول با لکل واضح ہیں ۔جہاںاللہ تعالیٰ کی حلا ل کردہ اشیا ء کو استعما ل کرنا ضروری ہے وہیں پر اس کی حرا م کردہ چیزوں سے پرہیز بھی ضروری ہے ۔آیت نمبر 123میں اسلا م کی روشنی میں چلنے والوں اور گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکنے والوں کی مثال دی گئی ہے ۔وحی الٰہی کی روشنی میں چلنے والے کا میا ب اور اس سے محروم نا کا م و نا مراد ہیں ۔اللہ تعالیٰ جسے ہدایت دینے کا فیصلہ فرما لیں اس کے سینے کو ہدایت کے لیے کھول دیتے ہیں اور جسے ہدا یت سے محروم فرما نا چا ہیں اس کے لیے ہدایت کو پانا اتنا ہی دشوا ر ہوتاہے جتنا آسما ن کی بلندیوں پر چڑھنا دشوار اور نا ممکن ہے ۔صراط مستقیم پر چلنے والے سلا متی کے گھر میں اطمینا ن و سکو ن سے رہیں گے جب کہ انکا ر کرنے والوں کے لیے سخت سزا ہے ۔اللہ تعالیٰ جب جن و انس سے پو چھیں گے کہ کیا تمہارے پاس میرے رسول آئے تھے کہ نہیں تو ان کا جواب اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہو گا کہ وہ حقیقت کا اعتراف کر کے اپنی بدبختی کو تسلیم کر لیں گے لیکن اُس وقت کا تسلیم کرنا انہیں کو ئی فا ئدہ نہیں دے گا ۔آیت نمبر137سے مشرکین کے شرک کی مختلف صورتوں کا تذکرہ فرما یا گیا ہے کہ وہ کس طرح جانوروں اور کھیتیوں کو غیر اللہ کے نا م منسوب کرتے تھے ۔وہ جس طرح چا ہتے جانوروں کے گوشت اور کھیتیوں کی پیداوار میں تصرف کرتے ۔ان کا خیال یہ تھا کہ انہیں اس با ت کا پورا اختیا ر حاصل ہے کہ وہ جیسے چا ہیں کریں۔ ان کی افتراپردازیوں کی داستان بہت لمبی ہے جو انہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی سے دور کر رہی ہے۔اس حقیقت کو بھی کھول کر بیا ن کیا گیا ہے کہ باغات، کھیتیاں اور ان کی ساری پیداوار انسان ہی کے فائدے کے لیے ہے ۔انسا ن کو چا ہیے کہ وہ جس دن اپنی پیداوار سمیٹے اس دن اللہ کا حق بھی ادا کرے اور غریبوں اور مسکینوں کا حصہ ضرور دے اس سے اس کے مال میں برکت بھی پیدا ہو گی اور وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بھی سرفراز ہو گا ۔آیت نمبر 151سے ان پا بندیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو بحیثیت مسلمان ہم پر لگا ئی گئی ہیں ۔اللہ کے ساتھ شرک کی ممانعت،والدین کے ساتھ حسنِ سلوک، اولاد کا نان و نفقہ کے ڈرسے قتل،فواحش و منکرات میں شمولیت انسانی جا ن کا نا حق قتل،یتیم کے ما ل کی حفاظت، ناپ اور تول میں انصاف،قول و فعل میںعدل و انصاف کی پاسداری کے حوالے سے واضح ہدایات دی گئی ہیں۔ان ہدایات کی پیروی کرنے والے ہی حقیقت میں صراطِ مستقیم پر رواں دواں ہیں اس کے علا وہ ہر راستہ گمراہی کی طرف لے جاتا ہے جس پر چلنے والا دنیا اور آخرت میں نقصان سے دوچا ر ہوگا ۔سورہ انعام کے آخر میں قرآنِ مجید کو انسانیت کے نا م رشد و ہدایت کا آخری پیغام قرار دیا گیا ہے ۔جو بھی اس پیغام کی پیروی کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مستحق ہو کر کامیاب و کا مران ہو جائے گا اور جو بھی اس سے منہ پھیرے گا تباہی و بر با دی اس کا مقدر بنے گی ۔یہ با ت بھی فرما ئی گئی ہے کہ جو لو گ اس انتظار میں ہیںکہ اللہ کے فرشتے ان کے سامنے اتریں ۔انہیں جا ن لینا چا ہیے کہ جس دن فرشتے اتریں گے اس دن ان کی مہلتِ عمل ختم ہو جا ئے گی اور وہ سزا سے دوچار ہو جا ئیں گے۔اللہ تعالیٰ انسا نوں پر بہت ہی مہربا ن ہیں ۔اس کی رحمت کا اندازہ اس با ت سے لگا یا جا سکتا ہے کہ جوشخص ایک نیکی کر ے گا اللہ تعالیٰ اسے دس گنا اجر عطا فرما ئیں ۔اس کے با المقابل جو برا ئی لے کر آئے گا اسے اس کے بقدر ہی سزا ملے گی اور تو بہ کرنے پر اس کے گناہوں کو بھی معاف کردیا جا ئے گا اے محمد ﷺ آپ اعلا ن فرما دیجیے کہ مجھے میرے رب نے سیدھے راستے کی ہدایت دے دی ہے ۔مجھے حکم ہے کہ میں ملتِ ابرا ہیم ؑ کا پیرو کار بن جاؤں ۔اب میری بدنی اور ما لی عبادتیں یہاں تک کہ میرا جینا اور مرناا للہ رب العالمین کیلئے ہے جن کا کو ئی شریک نہیں ۔مجھے اس با ت کا حکم بھی دیا گیا ہے کہ اللہ کی اطاعت و فرما نبرداری میںمجھے سب سے آگے آگے چلنا ہو گا ہر انسان اپنے کیے کا خود ہی ذمہ دار ہے ۔کوئی کسی دوسرے کا بو جھ نہیں اٹھا ئے گا اور تمام انسانوں کو اپنے اعما ل کی جواب دہی کیلئے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو نا ہے ۔اللہ تعالیٰ جہاں سخت سزا دینے والے ہیں وہیں پر بہت زیا دہ مہربا ن بھی ہیں ۔
سورۃ الاعراف
سورہ اعراف بھی مکی سورت ہے ۔اس میں 206آیات اور 14رکوع ہیں۔اعراف جنت اور جہنم کے درمیان وہ مقام ہے جہا ں پر وہ لو گ رکھے جا ئیں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہو ں گی ۔اس سورہ مبا رکہ کا اہم موضوع رسالت کا اثبا ت ہے۔با قی سارے مضامین اسی کے ارد گرد گھومتے ہیں ۔اس سورت کے نزول کے وقت اسلا می دعوت اس مر حلے پر پہنچ چکی تھی کہ انکار کرنے والوں کو افہام و تفہیم سے آگے بڑھ کر انذار کے انداز میں سمجھا یا جا ئے ۔مشرکین کے ساتھ ساتھ یہود کو بھی مخاطب کر کے دعوتِ اسلا می کی طرف متوجہ کیا گیا ہے ۔آخر میں مسلمانوں کو دعوتِ دین کے حوالے سے چند مؤثر ہدایا ت دی گئی ہیں۔سورت کا آغا ز اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ قرآنِ مجید کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ مخلوقِ خدا کو ان کے انجا مِ بد سے ڈرایا جا ئے اور اہلِ ایما ن کو نصیحت کی جا ئے تاریخ انسا نی اس با ت کی گواہ ہے کہ ماضی میں بھی جن قوموں نے انبیا ء کی دعوت کو مسترد کیا ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا اور پھر جشمِ زدن میں ہلاکت ان کا مقدر بن گئی۔قیامت کے دن وزن صرف حق اور سچ کا ہو گا ۔جن کے نیک اعما ل کے پلڑے بھاری ہوں گے وہ کا میابی سے ہمکنا ر ہوں گے اور جن کے اعما ل ہلکے ہو ں گے وہ نقصان سے دوچار ہوں گے ۔آیت نمبر 11سے قصہ آدم و ابلیس کو ایک اچھوتے انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔جس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ حق و با طل کی یہ کشمکش ازلی و ابدی ہے ۔شیطا ن کا چیلنج با لکل کھلا ہے کہ ’’ میں انسانوں کے دائیں اور با ئیں ،آگے اور پیچھے سے آؤں گا اور تو اکثر کو شکر گزار نہ پا ئے گا ‘‘۔شیطا ن کی چا لوں کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ سبز با غ دکھاتا ہے اور انسان کو گمراہ کرنے کے لیے تصویر کا خو شنما پہلو پیش کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شیطا ن نے حضرت آدم ؑ کے سامنے قسمیں کھاکھا کر اپنی خیر خواہی کا یقین دلا یا ۔اس قصے سے یہ با ت بھی معلو م ہوتی ہے کہ شیطان اور انسان کی اس کشمکش میں وہی انسان محفو ظ رہتا ہے جو اپنی غلطی کا اعتراف کر کے اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ و استغفار کرے ۔آیت نمبر23میں حضرت آدم و حواؑ کی دعا اتنی پراثر ہے کہ اُس نے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو اپنی جا نب متوجہ کر لیا اور ان کی توبہ قبول ہو گئی۔حضرتِ انسان زمین پر اتار دیا گیا اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ بھی فرمایا کہ اب جو بھی میری جانب سے عطا کردہ ہدایات کی پیروی کرے گا وہ دوبارہ اسی جنت کا مستحق ہو گا جس سے شیطا ن نے اسے نکلوانے کی کوشش کی تھی ۔اس ضمن میں بنی نوع انساں کو یہ نصیحت بھی کی گئی ہے کہ وہ شیطا ن کے بہلاوے میں ہر گز نہ آئیں ۔اس با ت کا یقین کر لیں کہ شیطا ن ان کا ازلی و ابدی دشمن ہے ۔اس سے کسی بھی خیر خواہی کی کو ئی توقع نہیں ۔وہ اپنے لشکریوں کے ساتھ انسانوں کو گمراہ کرنے کی لگاتار کو شش میں لگا رہتا ہے ایسے میں وہی لو گ اس کے حملوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں جو تقویٰ کے اسلحے سے لیس ہوں۔اہلِ ایما ن کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ عبادت کے وقت خوب بن سنور کر اللہ کے حضور پیش ہوں اس لیے کہ یہی ادب و احترام کا تقاضا ہے لیکن انہیں با ت کا خیال بھی رکھنا چا ہیے کہ وہ فضول خرچی اور اسراف کا شکار نہ ہوں ۔اسلا م اپنے ما ننے والوں کو خوب بن سنور کر رہنے کی تلقین کرتا ہے اس کا کہنا یہ ہے کہ یہ دنیا کی ساری نعمتیں اللہ تعالیٰ نے بندہ مومن ہی کے لیے پیدا کی ہیں ۔لہٰذا اسے چا ہیے کہ وہ سنیا سی اور جو گی بننے کی بجا ئے ایک بھرپور زندگی گذارے اور اللہ کی ان نعمتوں سے متمتع ہو۔اللہ تعالیٰ نے جس چیز سے منع فرمایا ہے وہ کھلی اور چھپی ہوئی برائیاں انسانوں پر ظلم اور اللہ کے ساتھ شرک ہے ۔یہ وہ برا ئیاں ہیں جو معاشرے کو تبا ہ و برباد کرتی اور انسا نیت کی تذلیل کرتی ہیں اس غلط راستے پر چلنے والے اپنے انکار پر مسلسل جمے رہتے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان کی روح قبض کرنے کے لیے آتے ہیں ۔یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے کہ ان کے سارے معبودانِ با طلہ ان سے الگ ہو جا تے ہیں اور وہ بے بسی کے عالم میں جہنم کی طرف منتقل کیے جا تے ہیں ۔جب نا فرما نوں کا یہ گروہ جہنم میں پہنچتا ہے تووہاں پہلے سے موجود نافرما ن جہنمی ان پر لعنت بر ساتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جو لو گ اللہ تعالیٰ کی آیا ت کا انکار کرتے ہیںاور تکبر وغرور سے ان کی گردنیں اکڑی ہوتی ہیں ان کے لیے جنت میں جانا اتنا ہی نا ممکن ہے جتنا اونٹ کا سوئی کے نا کے میں داخل ہونا محال ہے ۔ان کے لیے جہنم کی آگ کا بچھونا ہو گا اور ان کے اوپر بھی آگ ہی ڈالی جا ئے گی ۔رہے وہ لوگ جو اللہ پر ایمان لا ئے اور نیک عمل کرتے رہے اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو پاک صاف فرما کر جنت کی ابدی نعمتیں عطا فرما ئیں گے ۔یہ صاحبِ ایما ن اس وقت اس با ت کا بر ملا اعتراف کریں گے کہ ہمیں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے اگر اللہ کی جانب سے ہماری دستگیری نہ ہو تی تو ہم ہدایت سے مالا ما ل نہ ہو سکتے اور یہ سب کچھ اللہ کے رسولوں ہی کی وجہ سے ہوا ہے کہ انہوں نے ہمیں وحی الٰہی کے ذریعے اللہ تعا لیٰ کی معرفت عطا فرما ئی تھی۔آیت نمبر44سے وہ مکالمے شروع ہوتے ہیں جو اہلِ جنت ، اہلِ جہنم اور اصحابِ اعراف کے درمیان ہوں گے ۔اہلِ جنت ،جہنمیوں سے کہیں گے کہ ہم نے اپنے رب کا وعدہ با لکل سچا پایا ہے کیا تم نے بھی اپنے رب کا وعدہ سچا پایا ہے ؟ ان کا جواب ہاں میں ہوگا ۔بس اسی لمحے ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو ۔اصحابِ اعراف ایک اونچی جگہ پر ہوں گے ۔جب وہ اہلِ جنت کو دیکھیں گے تو انہیں سلا م کریںگے اور دل میں یہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ بھی جنت میں پہنچا دیے جا ئیں۔اسی وقت ان کی نظریں جہنمیوں کی طرف پھیری جا ئیں گی ۔جب وہ جہنم کے عذاب کو دیکھیں گے تو کانپ اٹھیں گے اور عرض کریں گے پروردگار تو ہمیں ظالم لوگوں میں ہر گز شامل نہ فرما ۔اصحابِ اعراف ان جہنمیوں کو مخاطب ہو کر کہیں گے کیا وجہ ہے کہ تمہارے جتھے تمہارے کچھ کا م نہ آئے اور جن جن چیزوں پر تم تکبر کرتے تھے وہ تمہیں عذابِ الٰہی سے نہ بچا سکیں ۔جن غریب مسلمانوں کے بارے میں تم قسمیں کھا کر کہتے تھے کہ انہیں کچھ بھی نہیں ملے گا آج وہ اللہ تعالیٰ کی جنت میں عیش کر رہے ہیں ۔جہنمیوں کے پاس اس کا کو ئی جواب نہیں ہو گا بس وہ جہنم کے عذاب میں مسلسل جلیں گے اور حسرت کی آگ ان کی جلدوں سے آگے بڑھ کر ان کی روحوں کو بھی جلا ئے گی ۔اہلِ جہنم ،اہلِ جنت سے عرض کریں گے کہ ہمیں پا نی کا کو ئی گھونٹ یا اللہ کے عطا کردہ رزق سے تھوڑا سا حصہ دے دو،جواب ملے گا اللہ تعالیٰ نے یہ تمام چیزیں تم پر حرام کر دی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ تم اللہ کے دین کو ایک مذاق سمجھتے تھے اور اللہ کی راہ سے بندگانِ خدا کو روکتے تھے ۔آج تمہیں ویسے ہی بھلایا جا ئے گا جس طرح تم آیاتِ الٰہی کو بھول گئے تھے ۔اب یہاں تمہاراکو ئی بھی پرسانِ حال نہیں ہے ۔آیت نمبر 54سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظاہروںکوپیش فرما کر انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت دی گئی ہے ۔آسمان و زمین کی تخلیق،دن رات کا آنا جانا ،سورج ،چانداور ستاروں کی تسخیر یہ پیغام دے رہی ہے کہ جس خدا نے یہ سب کچھ تخلیق کیا ہے بندگی بھی اس کی ہو نی چا ہئے۔سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہےحکمراں ہے اک وہی با قی بتانِ آذریاللہ تعالیٰ جس طرح ہوا کے دوش پر با دلوں کو اٹھاتا ہے اور آخر کار بارش برسا کر مردہ زمین کو زندگی سے مالا مال فرماتا ہے با لکل اسی طرح وحی الٰہی کی رحمتوں بھری برکھا سے انسانوں کے دلوں کی بنجر کھتیاں آبا د ہو جا تی ہیں ۔آیت نمبر 59سے انبیاء ؑ کے واقعات بیان فرما کر اس با ت کو ثابت کیا جا رہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کی طرف اپنے نبی اور رسول مبعوث فرما ئے ۔نبیوں کی بعثت کے بعد انسانیت دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی ۔کچھ لو گ ماننے والے اور کچھ انکار کرنے والےتھے تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ما ننے والے کامیا ب اور انکا ر کرنے والے ناکا م ہو ئے ۔اس ضمن میں سب سے پہلے حضرت نوح ؑ کی مثال دی گئی ہے ۔وہ سلسلہ نبوت کے پہلے نبی تھے جو ایک بگڑی ہو ئی قوم کے پاس آئے اور اسے ایک اللہ کی طرف بلایا لیکن قوم نے ان کاا ستہزا ء کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی دعوت کو مسترد کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سخت عذاب میں مبتلا فرما کر نیست و نا بود کر دیا ۔قومِ عاد کی طرف حضرت ھود ؑ کو بھیجا گیا ۔قوم نے انہیں جھوٹا اور بیوقوف ہو نے کا طعنہ دیا جس پر جنابِ ھود ؑ نے صاف الفاظ میں جواب دیا کہ میں بیوقوف نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کا رسول ہوں ۔میں اس لیے آیا ہوں کہ تمہیں پوری خیر خواہی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکاما ت پہنچا دوں ۔تم اس با ت کو بھی یاد رکھو کہ اس سے پہلے قومِ نوح انکار کی وجہ سے عذابِ الٰہی کا شکا ر ہو چکی ہے ۔اگر تم بھی یہی رویہ اختیار کرو گے تو تمہیں عذابِ الٰہی سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔چنا نچہ قوم ِ عاد نے انکار ہی کا رویہ اختیار کیا اور آخر کار ان پر اللہ کے عذاب کا ایسا کوڑا برسا کہ وہ تبا ہ و بربا د کر دیے گئے ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ثمود کی جا نب حضرت صالح ؑ کو مبعوث فرمایا جنہوں نے لوگوں کو ایک اللہ کی بندگی کی دعوت دی ۔لوگوں کے مطا لبے پر اونٹنی کو بطور معجزہ پیش کیا لیکن ان ظالموں نے اس معجزے کی قدر نہ کی اور حضرت صالح ؑ کو جھٹلانے کے ساتھ ساتھ اونٹنی بھی قتل کر ڈالا جس کا نتیجہ عذاب ِ الٰہی کی شکل میں ظاہر ہوا اور تباہی و بربا دی ان کا مقدر بن گئی۔قومِ لوط اپنے زما نے کی وہ بد اخلاق قوم تھی جس نے اخلاقیات کو با لا ئے طاق رکھتے ہو ئے وہ کارنا مے سر انجام دیے کہ اللہ کی پناہ۔ان کی خباثت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ وہ اپنی محفلوں میں علی الاعلان برائیاں کرتے اور جب انہیں سمجھایا جاتا تو الٹا حضرت لوطؑ اور ان کے ساتھیوں کو اپنے ملک سے نکال دینے کی دھمکیاں دیتے ۔آخر کار ان بدبختوں پر بھی عذابِ الٰہی کا کوڑا برسا اورزمین کے سینے کو ان کی خبا ثتوں سے پاک کر دیا گیا ۔حضرت شعیب ؑ نے قوم کی نا فرمانیوں پر آوازِ حق بلند کی تو قوم کا ہر پیر و جواں خلاف ہو گیا ۔انہوں نے ماپ تول میں کمی اور راہ چلتے قافلوں کو لوٹ لینے کے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ۔یوں لگتا تھا جیسے یہ جرائم ان کی عادتِ ثانیہ بن چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ انہیں چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہو ئے اور آخر کا ر عذابِ الٰہی کا شکار ہوگے۔