گرمی۔۔۔۔ماہ رمضان

May 24, 2018

تحریر:۔سیدمنہاج الرب
minhajur.rabjanggroup.com.pk
مئی کا مہینہ جس کے بارے میں شاعر کا کہنا ہے کہ مئی وجون کا مہینہ بہا ایڑھی سے چوٹی تک پسینہ۔ اس حقیقت کے معلوم ہونے کے باوجود کہ اس سال روزے بیچ مئی سے شروع ہوں گے اور ساتھ ساتھ اس وقت انٹر، آغاخان خان بورڈ اور کیمبرج کے امتحانات ہورہے ہوں گے۔ بجلی فراہم کرنے والے اداروں کو ان سب باتوں کی کچھ خبر نہ تھی۔ سب چین کی بانسری بجارہے تھے۔ایک طرف وفاقی حکومت دعوے دار ہے کہ اس نے پچھلے بارہ سال کے ریکارڈ توڑ دیئے اور بہت سارے بجلی کے منصوبہ شروع کئے جن کی وجہ سے بجلی کا بحران کم ہوا یا کسی جگہ ختم ہوگیا۔ لیکن افسوس جب کراچی کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جس شہر میں سب سے زیادہ " کمرشل" سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ جو ملک کا " فائنیشل حب" ہے۔ مگر لگتا ایسا ہے کہ وفاق سے بہت دور ہے ۔ کہ جووفاق کے کارناموں کے فوائد اس تک نہیں پہنچتےکیونکہ جب بھی کوئی مشکل وقت آتا ہے اس کی انتظامیہ حواس باختہ ہوجاتی ہے۔ پہلے سے کسی قسم کی forecasting نہیں کی جاتی ہے۔ ایک منظم ادارہ آنے والے وقت کے مطابق اپنی پیداوار اور اس کی رسدکا مناسب انتظام کرکے رکھتا ہے۔ تاکہ مشکل دنوں میں حالات قابو سے باہر نہ ہوجائیں۔ مستقبل کو دیکھ کر فیصلے کرنا ادارہ کے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ صرف بڑے لوگوں کو خوش اور بقیہ اکثریت کو تنگ کرنے میں مصروف رہتی ہے۔ بڑے مزے کی بات ہے کہ پلانٹس کی مناسب مانیٹرنگ کرنے کاانتظام نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پلانٹس کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے یہ پلانٹ بیٹھ جاتے ہیں۔ جس کا خمیازہ کراچی کی عوام کو بھگتنا پڑتا ہے کیونکہ " خواص کو لوڈشیڈنگ سے استثنیٰ " حاصل ہے۔ لیکن یہ راز آج تک معلوم نہ ہوسکا کہ خواص کو یہ استثنیٰ آئین کی کس شق کے تحت حاصل ہے؟ جب آئین میں سب کوبرابری کے حقوق حاصل ہیں تو لوڈشیڈنگ میں برابری کیوں نہیں ؟ وہ بھی ایسے وقت میں جب اسکول ،کالج اور جامعات کے طلبہ وطالبات امتحانات میں مصروف ہوتے ہیں۔