بھارت کیلئے ڈکٹیٹرز میں مشرف بہترین تھا، پسندیدہ رہنما بینظیر تھیں، 2018ء کے بعد شاہد خاقان ہی وزیراعظم ہونگے، دولت

May 25, 2018

اسلام آباد( وسیم عباسی) بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت کا کہنا ہے کہ پاکستان کے تمام فوجی آمروں میں جنرل (ر) پرویزمشرف بھارت کیلئے بہترین رہے۔ اپنے وقت میں پاکستان کے ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کے ساتھ مشترکہ تحریر کتاب اے ایس دولت نے پرویزمشرف کی تعریف کرتے ہوئے انہیں بھارت کیلئے مناسب قرار دیا۔ ایوب خان اور ضیاء الحق سے موازنہ کرتے ہوئے اے ایس دولت نے حریت کانفرنس کو متحد نہ کرنے کی کوششوں پر پرویز مشرف کوبھارت کیلئے بہترین اور موزوں ترین قرار دیا اور کہا کہ میرا ان کو پسند کرنا کشمیر کے تناظر میں ہے۔ میں نے 25سال کے دوران تنازع کشمیر پر پرویزمشرف سے زیادہ مثبت اور مناسب کوئی اور پاکستانی رہنما نہیں دیکھا۔ انہوں نے بارہا کہاتھا جو کشمیریوں کو قبول وہ ہمیں بھی منظور ہوگا۔ یہ اچھی بات تھی ہمیں اس پر کام کرنا اورآگے بڑھنا چاہئے تھے لیکن ہم پیچھے ہٹ گئے۔ انہوں نے کہاکہ نائن الیون کے بعد پرویز مشرف امریکی دبائو میں آگئے تھے۔ لیکن انہوں نے علیحدگی پسندوں کو غیر مؤثر ہوجانے کے لئے کہہ دیا تھا اور کہا اگر ان کے سیاسی عزائم ہیں تو پھر وہ انتخابات لڑیں۔ انہوں نے کہاکہ آج پاکستان حریت رہنمائوں کو یکجا اور متحد کرنے کی سرتوڑ کوششیں کررہا ہے۔ پرویزمشرف نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی۔ سید علی گیلانی رکاوٹ بنے تو مشرف نے انہیں راستے سے ہٹ جانے کے لئے کہا۔ وہ یقیناً دور بین تھے۔اگر آج کسی کشمیری سے پوچھیں تو وہ چار نکاتی فارمولے کو ہی قابل عمل قرار دے گا۔ ایک جنرل، آرمی چیف اور صدر کے طورپر پرویزمشرف کو اتنا ہی جانتا ہوں، جتناامریکی کہتے ہیں کہ وہ ایک وہسکی پینے والا اچھا انسان اورانگریزی میں بات کرتا ہے۔ اس کے ساتھ معاملات طے کئے جاسکتے ہیں۔ دونوں سابق انٹیلی جنس سربراہوں نے پاکستان کے موجودہ اور ماضی کے سیاست دانوں کے بارے میں بات کی ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے نوازشریف کو بہادر سیاست دان قرار دیا۔ جس نے 1998میں ایٹمی دھماکے کئے۔اے ایس دولت کے مطابق ان کی پسندیدہ پاکستانی رہنما بے نظیر بھٹو مرحومہ تھیں۔ وہ قتل ہوئیں تو بڑا دُکھ ہوا۔ سیاست میں ان کا مستقبل تھا۔ تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے واجپائی کے دور میں بھارت سے بہتر تعلقات قائم کئے۔ دونوں میں خصوصی تعلقات تھے ۔واجپائی اپنے پاکستانی ہم منصب کا بڑا احترام کرتے تھے اور جب ان کی حکومت کا تختہ اُلٹا گیا تو واجپائی کو بڑا افسوس ہوا۔ لیکن اسد درانی کوبے نظیر اور نوازشریف کے بارے میں دولت کی رائے سے اتفاق نہیں ہے۔ اسد درانی نے کہا میں بے نظیر کو ذاتی طورپرجانتا ہوں۔ ان کے دونوں ادوار میں خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے غریب کیلئے کچھ نہیں کیا۔ ان کے والد کو پھانسی دی گئی، خود انہیں جلا وطن کیاگیا لیکن ’’فیئری ٹیلز‘‘ سے بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ان کے پہلے دور میں شاید ان کا شوہر بدعنوان تھا لیکن دوسرے دور میں وہ خود کرپٹ رہیں۔ جیسا کہ ان کے قریبی وابستگان بتاتے ہیں۔ میں عام طورپر سیاستدانوں کا شیدائی نہیں ہوں۔ لیکن بے نظیر زرداری اور نوازشریف کی جانب سے قومی دولت کی لوٹ مارنے ان کے کردار کو گہنا دیا ۔ تاہم نوازشریف کو ایٹمی دھماکوں کا مکمل کریڈٹ جاتا ہے۔ میں نے اس کی کھل کر حمایت کی۔ انہوں نے درست فیصلہ کیا تھا۔ وہ ایک بہادر انسان ہیں وہ شاید ایٹمی صلاحیت اور ایٹمی ہتھیاروں کی افادیت نہیں جانتے انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب ’’کاروباری برادری‘‘ کی توقعات اورخواہشات کے برخلاف فیصلہ کیا تھا اوراس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کی پانچ سے دس ٹیلی فون کالز کے باوجود دبائو میں نہیں آئے۔ اسد درانی نے موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی بھی تعریف کی اور کہاکہ ان کے تمام ساتھیوں کا کہنا ہے وہ ایک ادارہ جاتی انسان ہیں صبح سے شام تک کام میں لگے رہتے ہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی جس کے وہ سربراہ ہیں جس کے اکثر ا جلاس ہوتے رہتے ہیں۔ انہوں نے امریکا سے مشکل تعلقات کو جس طرح سنبھالا۔ اس کی تعریف کی جاتی ہے۔ ان کا اقوام متحدہ میں خطاب شاندار رہا۔ تاہم وہ فوج کے آدمی نہیں ہیں۔ پرویزمشرف ان سے مایوس تھے کیونکہ وہ ایئر کموڈور (ر) خاقان عباسی کے بیٹے ہیں۔ پرویز مشرف نے فوجی پس منظر کاحوالہ دے کر شاہد خاقان کو نوازشریف سے توڑنا چاہا لیکن شاہد خاقان اپنے پارٹی رہنما کے وفادار رہے اورجیل جانا گوارا کیا۔’’را‘‘ کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے پیشگوئی کی ہے کہ شاہد خاقان عباسی ہی 2018 کے بعد بھی پاکستان کے وزیراعظم رہیں گے۔ گو کہ عمران خان چھپے رستم (ڈارک ہارس) ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے حالیہ دورہء لندن میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) احسان الحق سمیت پاکستانی رہنمائوں کے ساتھ پاکستان کی سیاسی صورتحال زیربحث آگئی۔ جس سے انداز ہ ہوا کہ آئندہ عمران خان برسراقتدار آسکتے ہیں لیکن کچھ ہفتوں بعد ہی اکثر کی رائے میں عمران خان کے برسراقتدار آنے کا کو ئی امکان نہیں ہے پاکستانی دوستوں سے جو کچھ سنا شاہد خاقان عباسی ہی کے دوبارہ برسراقتدار آنے کا قوی امکان ہے کیونکہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب پر مسلم لیگ (ن) ہی کا کنٹرول ہے اور عباسی میاں صاحب کا انتخاب ہیں جب پوچھا گیا کہ شہباز شریف کے ہوتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کو کیسے چنا جائے گا۔ تو اے ایس دولت کا کہنا تھا کہ عباسی نوازشریف کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھوپیں گے۔