چھتر کھائو ہاتھ ملائو جمہوریت

May 30, 2018

لاہور میں یوم تکبیر کی تقریب کے دوران اک بوسیدہ، خستہ حال عسرت زدہ ورکر نے اپنےمحبوب قائد نواز شریف سے ہاتھ ملانے کی کوشش کی تو سیکورٹی گارڈز نے مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا اور خاصی دیر مکوں، تھپڑوں، ٹھڈوں سے ووٹ کی عزت میں سرعام اضافہ کرتے رہے۔ اچھی طرح’’ووٹ‘‘ کے کھنے سینکنے کے بعد چیخ و پکار پر خبر ہوئی کہ یہ بھوکا ننگا’’جمہور‘‘ کوئی دہشت گرد نہیں، اک بے وقوف سا ووٹر ہے۔ گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کے لئے اس’’جمہور‘‘ کو بلا کر میاں صاحب نے اس کو دست پنجہ کا اعزاز بخشا۔ سنا ہے جی بھر کر چھتر کھانے کے بعد اس غیور باشعور نے نواز شریف کا ہاتھ بھی چوما تو اپنی ہی ایک پرانی بات پر میرا یقین پختہ ہوگیا کہ اس ملک کے عوام کے ساتھ جو کچھ بھی ہورہا ہے، ٹھیک ہی ہورہا ہے۔ شخصیت پرستی کا مارا ہوا ہر شخص یہی کچھ ڈیزرو کرتا ہے۔ میاں صاحب کے بارے میں ان کی صاحب زادی نے پہلے کہیں دعویٰ کیا تھا کہ’’نوازشریف اک نشہ ہے‘‘۔ تازہ ترین دعویٰ یہ ہے کہ’’عوام اور نواز شریف کا30سالہ عاشق معشوق کا رشتہ ہے‘‘۔ مجھے مریم کا ا سپیچ رائٹر نارمل نہیں لگتا جو کبھی’’نشے‘‘ اور کبھی’’عاشقی معشوقی‘‘ جیسی ٹرمنالوجی استعمال کرتے ہوئے بھول جاتا ہے کہ فضول کیا، اچھی قسم کے عا دی نشیئوں کو بھی نشے کی لعنت سے نجات دلانے کے لئے باقاعدہ اسپتالوں میں بھرتی کراکے انہیں صحتمند اور نارمل زندگی کی طرف واپس لایا جاتا ہے کیونکہ نشہ ہر سوسائٹی میں ناپسندیدگی سے دیکھا اور معیوب سمجھا جاتا ہے۔ چرس، بھنگ، افیون وغیرہ تو چھوڑیں، مہنگی ترین شراب کا عادی بھی اگر الکوحلک ہوجائے تو اسے مریض سمجھا جاتا ہے لیکن ہمیں کیا۔نشہ جانے اور نشیئی، لیکن ’’عاشقی معشوقی‘‘ والی بات بہت ہی منحوس اور خطرناک ہے۔ عاشقی معشوقی کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، دونوں کا مستقبل تاریک ہوتا ہے۔ یورپ کے رومیو جولیٹ سے لے کر عرب کے لیلیٰ مجنوں تک، ایران کے شیریں فرہاد سے لے کر پنجاب کے ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال سے سندھ کے پنوں سسی تک یہ عاشقی معشوقی کبھی کسی کو راس نہیں آئی یعنی رسوائی ہی رسوا ئی ا ور تنہائی ہی تنہائی۔ یوم تکبیر پر میاں صاحب نے 5ارب ڈالر’’رشوت‘‘کا حوالہ یوں دیا جیسے ان کو آفر ہوئی جبکہ اس کی نوعیت بالکل مختلف تھی۔ رہ گئے دھماکے تو میاں صاحب منتخب وزیر اعظم تھے کوئی’’میرا سلطان‘‘ نہیں۔ جمہوریت لولی لنگڑی بھی ہو تو اس میں فیصلے، خصوصاً اس قسم کا فیصلہ فرد واحد نہیں کرسکتا۔ اک اور منتخب وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو تو کہوٹہ میں قدم رکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی لیکن جو شخص اسمبلی میں جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتا یعنی’’جناب سپیکر! یہ ہیں وہ ذرائع‘‘ وغیرہ وغیرہ تو وہ خالصتاً سیاسی اجتماعات میں کیا کیا نہ چھوڑتا ہوگا۔یہی حال بلکہ اس سے بھی بدتر میاں صاحب کے اس وزیر اعظم کا ہے جو خود کو وزیر اعظم ماننے سے ہی انکاری ہے۔ عباسی صاحب نے کیا خوب فرمایا کہ اس عدلیہ، نیب اور میڈیا کی موجودگی میں ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ ایک اور ادارہ وہ جان بوجھ کر احتیاطاً بھول گئے کہ آخر شرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے، حیا بھی کوئی شے ہوتی ہے۔ جسٹس(ر) قیوم جیسوں کے بغیر عدلیہ، احتساب الرحمان قمرالزامان وغیرہ جیسوں کے بغیر ’’نیب‘‘ اور سرکاری وظیفوں پر بےشرمی سے ہاتھ صاف کرنے والے حواریوں، درباریوں، مسخروں اورقصیدہ گوئوں کے بغیر میڈیا ان کے تو واقعی کسی کام کا نہیں لیکن عوام کے لئے یہ تینوں قدرت کے انمول تحفے ہیں۔ آج کوئی دیانتداری سے دیکھے تو صرف ایک نتیجہ پر پہنچے گا کہ یہاں افواج، عدلیہ، نیب اور میڈیا کے علاوہ اور ہے ہی کیا۔ صرف ، صرف اور صرف افواج پاکستان کا کریڈٹ ہے کہ آج کا پاکستان دہشت گردی سے تقریباً نجات پاچکا۔ عدلیہ نے عوام کو پہلی بار اس فخر سے آشنا کیا کہ قانون سے بالا کوئی نہیں اور پیشیاں بھگتنا صرف کمزوروں کا ہی مقدر نہیں اور ابھی ہوا کیا ہے؟ پیشیاں بھگتنے کے نام پر پکنک ہی تو منارہے ہیں۔ کوئی مہاتیر محمد جیسا ہوتا تو ہمارے نجیب رزاقوں اور دیگر قذاقوں کو بھی سمجھ آگئی ہوتی لیکن جو ہورہا ہے، اسے بھی غنیمت سمجھو کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے ورنہ یہاں تو سپریم کورٹ پر یلغار کے کلچر کی بنیاد رکھی جاچکی تھی اور انصاف بریف کیسوں میں بلکتا تھا۔ معاف کیجئے احد چیمہ تو میں بھول ہی گیا۔رہ گیا میڈیا تو میں خود اس کا ایک معمولی سا حصہ ہوں اس لئے صرف ا تنا عرض کرنے پر اکتفا کروں گا کہ حضور! ہم تو خود ملامتی کے شاہکار ہیں۔ میڈیا کو جتنا برا بھلا میڈیا پر کہا جاتا ہے، کیا کوئی اور اس ’’خود احتسابی‘‘ کا تصور بھی کرسکتا ہے؟ الیکٹرانک میڈیا اس ملک کا کم سن ترین’’ادارہ ‘‘ ہے۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن اس کی پیدائش ہے، ریٹنگ کی پیدائشی بیماری اس کے علاوہ اور یہ ایسا ہی ہے جیسے سیاستدان ریٹنگ یعنی ووٹ بٹورنے کے لئے کسی بھی حد تک آجاسکتے ہیں، پارٹیاں بدل سکتے ہیں، بڑے سے بڑا جھوٹ بول سکتے ہیں، ووٹر ہی نہیں ایک دوسرے کو بھی خرید سکتے ہیں یعنی یہ بیماری بھی سیاست سے آئی لیکن ان تمام تر اعترافات کے باوجود میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ میڈیا کی مجموعی کارکردگی قابل رشک ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں میڈیا نے عوام کو جتنا ایجوکیٹ کیا وہ لاجواب ہے۔ میڈیا نے ’’اجتماعی شعور‘‘ میں اضافہ کے لئے تاریخی کردار ادا کیا۔ معاشرہ کے وہ گوشے، کونے، کھدرے بھی روشن کردئیے جو مکمل طور پر اندھیرے میں غرق تھے۔جس سیاستدان کا جی چاہے’’مناظرہ‘‘ کرلے کہ خود سیاستدانوں نے تو معاشرہ کو صرف یہ عطا کیا کہ’’چھتر کھائو\۔ہاتھ ملائو‘‘مکوں، تھپڑوں، ٹھڈوں کے بعد بھی ایک ’’جھوٹی جپھی‘‘ کے بعد بھنگڑے ڈالو۔ چپیڑیں مار مار کر’’ووٹ اور ووٹر کو سرعام عزت دو‘‘۔ یہ ہے وہ ٹوٹل تربیت جو ووٹ لینے والوں نے ووٹ دینے والوں کو دی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں0092300467998)