متحارب لیبیائی رہنما دسمبر میں انتخابات کے انعقاد پر رضا مند

May 31, 2018

(پیرس سے ہینری سیمول)

لیبیا میں چار متحارب دھڑوں نے جنگ زدہ ملک میں دسمبر کے مہینے میں صدارتی انتخابات منعقد کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے، یہ فیصلہ پیرس میں ایک امن کانفرنس کے دوران کیا گیا۔

چار افراد جو کہ لیبیا کے مسابقتی دھڑوں کے ایک بڑے حصے کی نمائندگی کرتے ہیں، نے انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے، الیکشن کے انعقاد کے لئے درکار فنڈز اور سخت سیکورٹی کو یقینی بنانے پر بھی رضامندی ظاہر کردی ہے۔

پیرس میں چار گھنٹوں تک جاری مذاکرات کے دوران مذکورہ رہنمائوں کو ملک میں 7 سال سے جاری تنازع کے خاتمے کے لئے سیاسی حل پر متفق ہونے کے لئے عالمی دبائو کا سامنا تھا۔

مصر، روس، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت، سعودی عرب اور ترکی سمیت 20 ممالک کے نمائندے بھی مذاکرات میں شریک تھے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک الجزائر اور تیونس نے بھی مذاکراتی عمل میں حصہ لیا۔

لیبیا میں 2011 میں نیٹو کی حمایت یافتہ بغاوت کے بعد معمر قذافی کے عہد کا خاتمہ ہوا تھا جس کے بعد سے تیل کی دولت سے مالا مال ملک انتشار کا شکار ہے۔ 2014 کے بعد سے لیبیا سیاسی تفریق کا شکار اور فوجی گروپوں میں بٹ گیا ہے جن میں سے ایک کا مرکز طرابلس اور دوسرے کا مشرق میں واقع ہے۔

لیبیا کے وزیراعظم فیاض السراج (جو اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ اتحادی حکومت کے سربراہ ہیں جس کا مرکز طرابلس میں ہے) اور لیبیا کے طاقتور فوجی جنرل 75 سالہ خلیفہ حفتر شامل ہیں جن کی لیبیائی نیشنل آرمی کے پاس ملک کے مشرقی علاقوں کا کنٹرول ہے بھی مذاکرات میں شامل ان چار رہنمائوں میں شامل تھے۔

لیبیا کے مشرقی شہر طبرق میں قائم حکومت (جو طرابلس میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ انتظامیہ کی مخالف ہے) کے اسپیکر صالح عیسیٰ اور ہائی کونسل آف اسٹیٹ کے نومنتب سربراہ خالد المشری بھی مذاکرات میں شریک تھے۔

ان چاروں رہنمائوں نے زبانی طور پر 8 نکاتی مشترکہ اعلامیہ پر اتفاق کیا تاہم طے شدہ منصوبے کے تحت اس پر دستخط نہیں کئے۔

اس ایجنڈے میں تمام مرکزی بینکوں کے انضمام اور متوازی حکومتوں اور اداروں کے فوری خاتمے پر اتفاق کیا گیا۔ مشترکہ فوج کی تشکیل کی حمایت پر بھی اتفاق کیا گیا، اس معاملہ پر مذاکرات قاہرہ میں کئے جائیں گے۔

مشترکہ اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ ’’فریقین نے انتخابات کے انعقاد کے لئے آئینی بنیادیں تشکیل دینے اور اس مقصد کے لئے 16 ستمبر 2018 تک انتخابی قوانین اپنانے اور 10 دسمبر 2018 تک صدارتی انتخابات کا انعقاد کروانے کے عزم کا اظہار کیا ہے‘‘۔

یورپ عسکریت پسندی کے خطرات کو کم کرنے اور لیبیا سے مہاجرین کے بہائو کو روکنے کے لئے لیبیا میں استحکام کی بحالی کو اہم گردانتا ہے، حالیہ برسوں کے دوران لیبیا سے سیکڑوں ہزاروں افریقی مہاجرین نے یورپ پہنچنے کی کوششیں کی ہیں۔

اس موقع پر رہنمائوں سے خطاب کرتے ہوئے تیونس کے صدر قائد السبسی کا کہنا تھا کہ ’’آپ کے علاوہ کوئی اور اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتا، اگر معاملات درست نہ ہوئے تو یہ آپ کی ذمہ داری ہوگی۔‘‘

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکغوں نے کانفرنس کو تاریخی قرار دیتے ہوئے اس کی ستائش کی جس کے زریعے سے پہلی مرتبہ متحارب فریقین کو ایک جگہ، ایک ہی وقت میں اور ایک ہی میز پر جمع کرنے میں مدد ملی، ان کا کہنا تھا کہ ’’حتمی معاہدہ مصالحت کی طرف ایک مثبت اور اہم قدم ہوگا۔‘‘

تاہم تجزیہ نگاروں اور سفارتکاروں نے مشورہ دیا ہے کہ لیبیا کی زمینی صورتحال کی بہتری کی امید لگانے میں احتیاط برتا جائے۔

لیبیا کے سیاسی تجزیہ کار طارق میگیریسی کا کہنا ہے کہ یہ چار مختلف کیمپوں کے لوگوں کو ایک جگہ اکھٹا کرنا مثبت قدم ہے، چار اہم شخصیات نے ان قائم کئے گئے اصولوں پر اتفاق کیا ہے حالاں کہ انہوں نے اس پر دستخط نہیں کئے۔

انہوں نے ٹیلی گراف کو بتایا کہ ’’لیکن میں سجھتا ہوں کہ ہمیں بہت زیادہ مطمئن نہیں ہونا چاہئے، یہ ایک معنی خیز عمل کا مظہر ہے۔ اگر چہ گزشتہ برس پیرس کانفرنس کے موقع پر حفتر اور فیاض نے کسی معاہدے پر دستخط نہیں کئے تھے تاہم اس کے نتیجے میں زمینی صورتحال پر کافی فرق پڑا تھا۔‘‘

’’اگر دیکھیں جو اصول انہوں نے طے کئے ہیں ان میں اب بھی ابہام موجود ہیں، مذاکرات میں شامل ان چاروں شخصیات کا لیبیا کے تمام علاقوں سے تعلق نہیں ہے، لیبیا میں موجود کئی دیگر اسٹیک ہولڈرز نے یا تو اس کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کردیا تھا یا پھر انہیں مدعو ہی نہیں کیا گیا تھا اور وہ اب بھی اپنی لڑائی جاری رکھیں گے اور یہ دیکھنا ہوگا کہ رواں برس کے اختتام تک الیکشن کا انعقاد کس طرح ممکن بنایا جاسکے گا۔

’’یہ ایک اچھا نقطہ آغاز ہے لیکن میں اب بھی اس سے پوری طرح مطمئن نہیں ہوں۔‘‘

لیبیا میں مختلف ہاتھوں میں ہتھیار گھوم رہے ہیں اور الیکشن کے حوالے سے سیکورٹی خدشات موجود ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک کے مسابقتی مفادات کو دیکھتے ہوئے صورتحال ابہام کا شکار ہے جو کہ چند اوقات پر لڑنے والے متحارب گروپوں کی حمایت کرتے رہے ہیں جبکہ اس کیساتھ ساتھ یورپی ممالک کی آپسی مخالفت بھی زوروں پر ہے۔

لیبیا میں چند مخالفین سمجھتے ہیں کہ فرانس فوجی جرنل خلفیہ حفتر کی حمایت کررہا ہے جن کی فوج اسلام پسند ملیشیا کیساتھ لڑائی لڑ چکی ہے اور ایک نامعلوم مقام پر فارسی اسپتال میں ان کا خفیہ علاج بھی کیا گیا ہے۔

روم میں چند ناقدین کا کہنا ہے کہ فرانسیسی صدر نے جان بوجھ کر ایسے موقع پر کانفرنس کا انعقاد کیا ہے کہ جب اٹلی سیاسی انتشار کا شکار ہے۔ اٹلی کے لیبیا میں تیل سے بڑے مفادات وابستہ ہیں۔

فرانسیسی صدر یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ انہوں نے منگل کے روز ہونے والی کانفرنس میں تمام اہم علاقائی رہنمائوں کو شامل کیا۔ لیبیا میں اقوام متحدہ کے سفیر غسان سلام نے مذاکرات کے اختتام پر کہا کہ ’’میں انتہائی پرامید ہوں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ لیبیائی رہنما تھے جنہوں نے ہماری موجودگی میں اتفاق رائے قائم کیا۔ یہ انتہائی اہم ہے، میں نے اس سے پہلے کبھی لیبیا اور عالمی خواہش کے درمیان اتنی ہم آہنگی نہیں دیکھی۔‘‘