پاکستان کی تعمیراتی صنعت اور ہاؤسنگ انڈسٹری میں سرمایہ کاری کے وسیع امکانات

June 03, 2018

پاکستان کی تعمیراتی صنعت اور ہاؤسنگ انڈسٹری میں قومی و بین الاقوامی سرمایہ کاری کا رجحان اس وقت تک پروان نہیںچڑھے گا جب تک حکومت سنجیدگی سے تعمیرات کو صنعت کا سرکاری درجہ دیکر ملک بھر کے لیے ہاؤسنگ پایسی کا اعلان کرتے ہوئے جامع حکمت عملی وضع نہیں کرتی۔ہمارے ہاں اس شعبے میں سرگرمیاں بے ضابطہ انداز میں ہورہی ہیں جس کے باعث نہ صرف بلڈرز بلکہ سرمایہ کاروں کو بھی اس شعبے میں ان گنت مسائل کا سامنا ہے۔زمین کی نجی و سرکاری قیمت میں بہت بڑی تفریق، سرکاری اور نجی ریٹ میں من مانیاں،ریونیو ڈپارٹمنٹ کی خرد برد اور ساز باز اورلینڈ مافیاوہ اہم مسائل ہیں جن کا سامنا کم و بیش پورے ملک میں سرمایہ کاروں کو کرنا پڑتا ہے۔نیز اس شعبے کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ عدم سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ موجودہ بجٹ میں بھی اس شعبے کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ ،امریکہ و یورپی ،ایشیائی ممالک کی تعمیرات میں بڑھتی دلچسی

مشرقِ وسطیٰ کے اہم ممالک سعودی عرب، مصر،متحدہ عرب امارات،تائیوان، انڈونیشیا، ناروے،برطانیہ، امریکہ، جرمنی، چین،روس سمیت کئی بڑے ممالک کی حکومتیں اور عوام اس شعبے میں سرمایہ کاری میں سنجیدہ ہیں لیکن ملک کی سیاسی صورت حال اور عمومی عدم دلچسپی سرمایہ کاروں کو اس اہم شعبے میں بڑی سرمایہ کاری سے روکے رکھتی ہے۔ان مشکلات کے باوثق اس وقت بھی بڑے پلازا،ایمپوریم،لگژری اپارٹمنٹس کی جدید خطوط پر تعمیر میں غیر ملکی بلڈرز اور سرمایہ کار مصروف ہیں۔

سرمایہ کاری پرُ امن ماحول سے مشروط

تعمیراتی صنعت سیاسی صورتحال پر سب سے زیادانحصار کرتی ہے۔ سیاسی استحکام، مضبوط معیشت اور امن و امان کی تسلی بخش صورتحال تعمیراتی صنعت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دنیا بھر میں گولڈن، فارن کرنسی سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کا رجحان زیادہ ہوتا ہے، اس کے برعکس پاکستان میں رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کو زیادہ منافع بخش کاروبار تصور کیا جاتا ہے۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران غیر بد امنی کے واقعات نے تعمیراتی صنعت پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں جس سے تعمیراتی صنعت میں سرمایہ کاری بھی کسی حد تک متاثر ہوئی ہے۔میڈیا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے ٹاک شوز کو میدان جنگ بنانے کے بجائے تحمل کا مظاہرہ کریں اور حالات کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کیا جائے تاکہ عوام میں خوف پیدا نہ ہو۔ تعمیراتی صنعت کو سیاسی عدم استحکام اور بد امنی کے بڑھتے واقعات نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔ ملک میں حالات سازگار ہوں تو پاکستان سے سرمایہ کاری کیونکر منتقل ہو۔ سرمایہ کاری پرُ امن ماحول سے مشروط ہے۔پاکستان کی معاشی، سیاسی اور امن و امان کی صورتحال میں بدستور بہتری آ رہی ہے ۔

تعمیرات میں سرمایہ کاری میں حکومت کا کردار

دنیا بھر میں حکومتوں اور عوام کی جانب سے رئیل اسٹیٹ میں خصوصی توجہ دی جاتی ہے،اس لیے تعمیرات کے شعبے میں حکومت کے کردار کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں اس جانب خاص توجہ نہیں دی جاتی یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کاری میں کمی واقع ہو رہی ہے ۔ڈویلپرزاوربلڈرز نے ہی اس صنعت میں سب سے زیادہ کام کیا اور روزگار کے وسیع مواقع فراہم کئے۔ گورنمنٹ سیکٹر نے تعمیراتی صنعت میں زیادہ کام نہیں کیا۔

حکومت چاہیے تو غریب آدمی کے ذاتی گھر کا خواب بآسانی پورا کر سکتی ہے۔ حکومت پرائیویٹ پبلک پارٹیز شپ کے تحت ہاؤسنگ ا سکیمیں متعارف کرائے۔ نجی شعبہ کے ساتھ جوائنٹ وینچر بھی کرے، سستی ہاؤسنگ اسکیموں کیلئے ملک بھر میں زمین کی کمی نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے بیرون ملک اور سمندر پار پاکستانیوں کو اپنے وطن میں سرمایہ کاری کرنے کی جانب راغبکرے۔ ملک میں امن ہو تو بیرون ملک مقیم سمندر پار پاکستانیوں کی کثیر تعداد اپنے وطن میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری لانے کیلئے تیار ہے۔

بین الاقوامی تعمیراتی کانفرنس وقت کا تقاضا

موجودہ وقت میں تعمیرات میں آرکیٹیکچر اور ڈیزائننگ کاشعبہ ترقی کی کئی منازل طے کر چکا ہے۔ہر چندپاکستانی تعمیرات میں جدید رجحانات کو اپنایا گیا ہے لیکن اس حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اس ضمن میں ایک بین الاقوامی تعمیراتی کانفرنس منعقد کی جانی چاہیے جس میں اس شعبے سے تعلق رکھنے والی عالمی شخصیات کو مدعو کیا جائے اورجدید تعمیراتی آئیڈیاز کا تبادلہ کر کے ملک کو فائدہ پہنچایا جائے۔یہ وقت کا اہم تقاضا ہے۔ اگر کانفرنس کی طرح کی تقریب منعقد کی جائے تو یقیناًاس کا بہت فائدہ ہو گا۔ تعمیرات کے شعبے میں مارکیٹنگ اور ڈیزائننگ میں نئے اسٹائل اپنائے گئے ہیں جو ہمارے اپنے ہی تجویز کردہ اور ماہرین آرکیٹیکچر کی مرہونِ منت ہیں چونکہ ہمارے ہاں ریسرچ و رک کافقدان ہے اس لیے ہمیں خاطر خواہ نتائج نہیں مل پاتے۔

تعمیرات کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دیا جائے

ویسے تو ہم تعمیراتی صنعت ہی استعمال کرتے ہیں لیکن سرکاری پروفائل میں اسے صنعت کا درجہ حاصل نہیں۔ اس شعبے کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دیاجائے تو یقیناًاس سے اس شعبے کے حالات کافی بہتر ہوں گے اور متعلقہ حکومتی ادارے اور پرائیویٹ سیکٹر کے لوگ اس شعبے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے مزید اقدامات کریں گے۔ تعمیرات کے شعبے کو سہولیات حاصل ہوں گی تو کام کی رفتار میں بھی تیزی آئے گی۔ اس شعبے کو ترقی ملتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے وابستہ دیگر بہت سی صنعتوں میں بھی تیزی آئے گی اور ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور سرمایہ کاری بھی آئے گی۔ اگر حکومت کنسٹریکشن انڈسٹری کے لیے سازگار پالیسیاں تشکیل دے تو یہ انڈسٹری پاکستان کے جی ڈی پی میں کئی گنا اضافہ کر سکتی ہے۔

آباد کے سرپرست اعلیٰ محسن شیخانی کے بقول :’’بہتر پالیسیوں کی وجہ سے ویت نام جیسا چھوٹا ملک سالانہ 246ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کر رہا ہے جبکہ بنگلا دیش کی برآمدات بھی 33ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں لیکن پاکستان میں پالیسیوں میں عد م استحکام کی وجہ سے ہماری برآمدات تنزلی کا شکار ہیں۔ اگر حکومت کنسٹریکشن انڈسٹری پر بہتر توجہ دے اور اس کے لیے سازگار پالیسیاں بنائے تو اس سے وابستہ دیگر صنعتوں کو بھی بہتر ترقی ملے گی جس سے پاکستان کے ریونیو اور برآمدات میں بہتری آئے گی۔ ملک سے گھروں کی قلت کو کم کرنے کے لیے پاکستان میں ہر سال 8لاکھ گھر تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لیے کنسٹریکشن انڈسٹری کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے اور عوام کو گھر خریدنے کے لیے آسان شرائط پر قرضے فراہم کرے۔‘‘