انتخابات آہی گئے ۔۔۔۔!

June 03, 2018

خدا کا شکر کہ منتخب حکومت کے پانچ سال اور جمہوریت کے دس سال مکمل ہوئے۔ یہ سفر مگر کچھ آسان نہ تھا۔ راستے میں بہت سی رکاوٹیں حائل رہیں۔ دھرنوں ، لاک ڈائون،سازشوں، الزامات اور مطالبات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ درپیش رہا۔ تمام تر مشکلات اور مسائل کے با وجود جمہوری نظام کا تسلسل نہایت اہم سنگ میل ہے۔اب ملک میں عام انتخابات کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ ایسے مناظر ہماری سیاسی اور انتخابی تاریخ میں شاذ ونادرہی دکھائی دئیے۔ ہمارے ہاںبر وقت انتخابات کا انعقاد کم کم ہی ممکن ہو سکا۔اور جب جب انتخابات ہوئے، انکے نتائج کو تسلیم نہ کیا گیا۔ انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے کے باعث ہمارا ملک ٹوٹ گیا۔ انتخابی تنازعات ہی کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو جیسا ذہین سیاسی رہنما پھانسی چڑھا دیا گیا۔ اور ملک گیارہ سال کیلئے مارشل لاکی نذر ہو گیا۔ خدا خدا کر کے جمہوریت بحال ہوئی تو محترمہ بے نظیر بھٹو ا ور میاں نواز شریف ایک دوسرے کی جیت کو دھاندلی کا نتیجہ قرار دیتے رہے۔دونوں رہنما دو دو بار منتخب ہو کر وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے ، مگر کوئی بھی اپنی مدت اقتدار مکمل نہ کر سکا۔ آخر کاریہ کشمکش مارشل لاپر منتج ہوئی۔ میثاق جمہوریت کا فیضان ہے کہ ان دونوں بڑی جماعتوں نے 2008 کے بعد ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا۔ تمام تر سیاسی اختلافات کے با وجود ایک دوسرے کی حکومت گرانے کی سازشوں کا حصہ نہیں بنے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے پاکستان پیپلز پارٹی نے پانچ سال مکمل کیے اور اب مسلم لیگ(ن) نے ۔ جمہوریت کے اس تسلسل پر پوری قوم مبارکباد کی مستحق ہے۔
قابل افسوس امر ہے کہ یہ پانچ سالہ جمہوری دور انتہا درجے کی سیاسی بے یقینی اور عدم استحکام کا شکار رہا۔ حکومت گرانے کی باتیں ہوتی رہیں، اسکے جانے کی تاریخیں دی جاتی رہیں۔ چند ماہ قبل تک ہم سنتے تھے کہ عام انتخابات تو دور کی بات، سینٹ انتخابات بھی ہوتے نظر نہیں آتے۔بیشترحکومتی اراکین پارلیمنٹ بھی کچھ زیادہ پر امید نہ تھے۔ مگر (جیسے بھی سہی) سینٹ انتخابات ہوئے۔اور اب خدا کےفضل سے 25جولائی کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن شیڈول جاری کر دیا ہے۔ نگران وزیر اعظم کی حلف برداری کے بعد، بے یقینی کی کیفیت دم توڑ چکی ہے۔ وفاقی سطح پر نگران وزیر اعظم کا تقرر نہایت اہم معاملہ تھا۔اس ضمن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے سیاسی حکمت اور دانشمندی کا ثبوت دیا ۔ سیاسی بلوغت غالبا اسی کو کہتے ہیں۔ جسٹس (ر) نا صر الملک جیسے بے داغ اور غیر متنازعہ شخصیت کی تقرری غیر جانبدار الیکشن کی طرف پہلا قدم ہے۔ نہایت خوش آئند ہے کہ ملک کے کسی گوشے سے اس فیصلے سے متعلق کوئی اختلافی آواز سنائی نہیں دی۔ ایک بار پھر ثابت ہوا کہ ہمارے سیاستدان اہم قومی معاملات باہمی رضامندی اور اتفاق رائے سے طے کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
البتہ تحریک انصاف کی طرف سے نگران وزرائے اعلیٰ کے بارے میں انتہائی ناقابل فہم اور بڑی حد تک طفلانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ د و صوبوں یعنی پنجاب میں بطور اپوزیشن لیڈر اور خیبر پختونخوا میں بطور حکمران جماعت انہیں نگران وزرائے اعلیٰ کی نامزدگی میں کردار ادا کرنا تھا۔ لیکن دونوں جگہ انہوں نے نا قابل یقین حد تک عدم بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معاملے کو الجھا دیا۔ دونوں جگہ نام تجویز کر کے انہوں نے پسپائی اختیار کر لی۔ پنجاب میں تو واضح اعلان بھی ہو گیا۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور قائد حزب اختلاف محمود الرشید نے مشترکہ طور پر میڈیا پر اعلان بھی کر دیا۔ طے پا گیا کہ ناصر کھوسہ نگران وزیر اعلیٰ ہونگے ، لیکن چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ پی ٹی آئی نے یو ٹرن لے کر نا صر کھوسہ کا نام واپس لے لیا۔ شاید پی ٹی آئی کی قیادت کو اندازہ نہیں کہ انکے اس طر ز عمل سے ایک پختہ کار سیاسی جماعت کے طور پر انکے تشخص کو کتنا شدید نقصان پہنچا ہے۔ خان صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایسا تو کھیل میں بھی نہیں ہوتا۔ کرکٹ میچ میں ٹاس ہونے کے بعد جب ایک کپتان پہلے بیٹنگ یا بولنگ کا فیصلہ کر لیتا ہے تو ڈریسنگ روم میں واپس جا کر وہ کوچ یا کسی اور کے مشورے پر فیصلہ واپس نہیں لے سکتا۔ جو بات کھیل میں جائز نہیں ہے وہ سنجیدہ آئینی اور ریاستی امور میں کیسے روا ہو سکتی ہے۔ محمود الرشید نے تاویل دی کہ" جلد بازی میں نام دیا۔ غلط فہمی کا شکار ہو گئے تھے"۔جلد بازی کی منطق سمجھ سے بالا ہے۔ وجہ یہ کہ گزشتہ کئی ماہ سے نگران حکومتوں کے معاملات زیر بحث ہیں اور تحریک انصاف کو یقیناََ معلوم ہوگاکہ آئینی طور پر صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں نگران وزرائے اعلیٰ کی تقرری میں اسے شریک مشاورت ہوناہے۔
گزشتہ برسوں میں تحریک انصاف درجنوں بار قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ اب جب انتخابات کا وقت آیا تو اسکی تیاری ہی نہیں اور اسے" جلد بازی" میں فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔ نگران وزرائے اعلیٰ کا تقرر تو ہو ہی جانا ہے۔ لیکن الیکشن سے کچھ ہی عرصہ قبل اپنے بارے میں غیر سنجیدگی، عدم بلوغت اور نا پختہ کاری کا تاثر دے کر پی ٹی آئی نے خود کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اور یہ تاثر گہرا ہوا ہے کہ پارٹی میں فیصلہ سازی کا کوئی ٹھوس اور پر حکمت نظام موجود نہیں۔
بہر حال الیکشن کمیشن کی طرف سے بر وقت انتخابات کے ٹھوس اعلان اور تفصیلی شیڈول کے اجراکے بعد اب ساری توجہ انتخابی عمل پر مرکوزہو جانی چاہیے۔مگر اہم بات یہ ہے کہ انتخانات کا بر وقت انعقاد کافی نہیں۔ انتخابات کی ساکھ اور اعتبار اسکے انعقاد سے زیادہ اہم معاملہ ہے۔ حال ہی میں سیاسی، انتخابی اور پارلیمانی امور کی نگرانی کرنے والے ادارے پلڈاٹ(Pakistan Institute of Legislative Development and Transparency) کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جسکے انکشافات زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ بے داغ، شفاف اور آزادانہ انتخابات کے حوالے سے عوام میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں اور وہ گمان رکھتے ہیں کہ مختلف موثر حلقے سیاسی جماعتوں اور شخصیات سے مساوی سلوک نہیں کر رہے ہیں۔ قابل تشویش بات یہ ہے کہ رپورٹ کے مطابق میڈیا پر بھی عوامی اعتماد کمزور ہوا ہے اور وہ اسکے طرز عمل کو انتہائی غیر منصفانہ(highly unfair) قرار دے رہے ہیں۔ ان تمام امور کے پیش نظر الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کا کردار نہایت اہم ہو گیا ہے۔ انہیں انتخابات کے انتظامی امور ہی کی نگرانی نہیں کرنی۔ بلکہ انکی ساکھ، اعتبار اور وقار کو بھی یقینی بنانا ہے۔ لوگوں کو محسوس ہونا چاہیے کہ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں اور نمایاں شخصیات کیساتھ کسی طرح کا امتیازی برتائو نہیں کیا جا رہا۔ اگر انتخابات پر امن طریقے سے منعقد تو ہو گئے ، لیکن عوامی سطح پر انکی جانب داری اور متنازع ہونے کا تاثر ابھرا تو یہ ملک و قوم کیلئے انتہائی افسوسناک ہو گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)