کان کنی:خطرناک پیشہ

June 05, 2018

بلوچستان کے علاقے سنجدی میں کوئلے کی کان بیٹھ جانے سے چار کانکنوں کے جاں بحق ہونے کا واقعہ انتہائی افسوسناک اور اس بات کا متقاضی ہے کہ غمزدہ خاندانوں کی تالیف قلوب کے تمام اقدامات کئے جائیں۔ زیادہ صدمے اور افسوس کی بات ایسی تدابیر کی قابل اعتماد حد تک موجودگی یا عدم موجودگی کے بارے میں متعلقہ انتظامیہ اور اداروں کی خاموشی ہے جو کانکنوں کی جانوں کی حفاظت کرنے اور انہیں ممکنہ حادثات و خطرات سے بچانے کے لئے ضروری ہیں۔ بہت سے صنعتی اداروں میں بھی ہائی وولٹیج، آگ کی شدید تپش اور بھاری مشینوں کے استعمال کے باعث کوئی بھی بے احتیاطی سنگین المیوں کو جنم دے سکتی ہے۔ بظاہر کم خطر مشینی آلات کی موجودگی والے اداروں میں بھی آگ بجھانے کے انتظامات کے ساتھ ہنگامی حالت میں استعمال کے لئے دروازوں اور سیڑھیوں سمیت متعدد اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے تمام مقامات پر خطرات سے نمٹنے اور ان کے امکانات معدوم کرنے کے اقدامات یقینی بنانا اگرچہ متعلقہ اداروں کی فنی ، پیشہ ورانہ ، اخلاقی اور انسانی ذمہ داری سے مگر اس بارے میں عالمی اور بین الاقوامی اداروں کے کنونشنوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کا وطن عزیز نہ صرف پابند ہے بلکہ پاکستان نے خود بھی صنعتی اداروں اور کاروباری مراکز میں کام کرنے والوں کو خطرات سے بچانے کے لئے مختلف مواقع پر قوانین بنائے ہیں اس کے باوجود کراچی میں بلدیہ ٹائون فیکٹری اور لاہور سمیت کئی مقامات پر کارخانوں میں آتشزدگی سیکڑوں جانیں نگل چکی ہے۔ بلوچستان میں کانکنی کے دوران گیس دھماکہ ہونے ، کانکنوں کے پھنس جانے یا دوسری وجوہ سے حادثات آئے روز پیش آتے رہتے ہیں جن میں روزی کمانے کے لئے دوردراز علاقوں سے آنے والے مزدوروں کے لواحقین کو ان کی لاشیں اٹھانا پڑتی ہیں۔ متعلقہ اداروں اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ ان واقعات و حادثات کی روک تھام کی سنجیدہ تدابیر کریں، ان سے غفلت برتنے والوں کا کڑا محاسبہ کریں اور حادثات کا شکار ہونے والوں کے لواحقین کی ہر ممکن مدد یقینی بنائیں۔