الیکشن اور سیاسی جماعتوں کا فریضہ

June 09, 2018

وطن عزیز بلاشبہ اس وقت اپنی تاریخ کے اہم موڑ پر ہے اور ہر ذی شعور الیکشن کے بروقت اور شفاف انعقاد کو پاکستان کے محفوظ مستقبل کا ضامن قرار دے رہا ہے۔ان حالات میں سیاسی جماعتوں کی آویزش درست نہیں کہ وہ اپنا اختیار باہمی اتفاق رائے نہ ہونے پر اداروں کو سونپ کر گویا خود یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہیں کہ وہ ابھی تک بالغ النظر نہیں ہوئیں۔ صوبہ پنجاب اور بلوچستان کے نگران وزرائے اعلیٰ بھی الیکشن کمیشن کو ہی مقرر کرنا پڑے کہ سیای جماعتیں یہ مرحلہ طے نہ کر پائیں۔ پنجاب میں تو تحریک انصاف نے نگران وزیراعلیٰ کے طور پر ناصر کھوسہ کا نام دے کر واپس لے لیا تھا حالانکہ ن لیگ اس نام پر بھی متفق ہوگئی تھی۔ بہرکیف معاملات طے نہ پاسکے اور معاملہ الیکشن کمیشن کے سپرد ہوا۔ جس نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے پروفیسر حسن عسکری اور بلوچستان کے لئے علائو الدین مری کے ناموں کا اعلان کر کے نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) رضا کی زیر صدارت مشاورتی اجلاس میں الیکشن کمیشن کے چاروں ممبر شریک ہوئے اور باہمی مشاورت کے بعد ان ناموں میں سے پنجاب اور بلوچستان کے نگران وزرائے اعلیٰ منتخب کئے گئے جو نام پنجاب اور بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے دیئے گئے تھے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) نے پروفیسر حسن عسکری کی تقرری کو رد کردیا، لاہور میں سعد رفیق، احسن اقبال اور خرم دستگیر کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کا معاملہ پورے الیکشن عمل کو مشکوک بنا دے گا، بدقسمتی ہے کہ الیکشن کمیشن نے حسن عسکری کا نام فائنل کیا، ان کے ٹویٹ اور آرٹیکل (ن) لیگ کے خلاف موجود ہیں جو ہماری پارٹی سے تعصب کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ غیر جانبدار اور ایسے شخص کو نگران وزیراعلیٰ بنایا جائے جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے، اس تقرری نے پورا معاملہ مشکوک بنا دیا ہے، نظر آرہا ہے کہ انتخابات شفاف اور آزادانہ نہیں ہوں گے۔ حالات کا جائزہ لیا جائے تو ان تجزیہ کاروں کی بات میں وزن دکھائی دینے لگتا ہے جو دو ٹوک الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ الیکشن بروقت نہیں ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے اعتراض کو بجا بھی خیال کر لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا کہ کیا ہماری سیاسی جماعتیں ہنوز اس قابل نہیں ہوئیں کہ اپنے معاملات خود نمٹا سکیں اور انہیں اداروں تک نہ پہنچنے دیں؟ جس طرح وفاق، سندھ اور خیبرپختونخوا میں یہ مرحلہ طے کر لیا گیا یہاں بھی باہمی مشاورت سے طے کیا جاسکتا تھا۔ دوسری بات یہ کہ الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے اور اس پر اثر انداز ہونا اس لئے ممکن نہ ہوگا کہ قومی ہی نہیں بین الاقوامی میڈیا بھی انتخابات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے ، علاوہ ازیں عدلیہ اور فوج انتخابات کی شفافیت اور ان کے آزادانہ و منصفانہ انعقاد کی یقین دہانی کرا چکی ہے۔ رہی بات پروفیسر حسن عسکری کی جگہ کسی اور کی تقرری کی تو آئین کے آرٹیکل 224کے تحت الیکشن کمیشن کو نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی تقرری کا فیصلہ ایک بار کرنا ہوتا ہے، فیصلہ حتمی ہوتا ہے اور اس پر نظر ثانی کی گنجائش بھی نہیں ہوتی اور آئین کی رو سے یہ فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج بھی نہیں کیا جاسکتا۔ دریں صورت سبھی جماعتوں کو ملک کے مفاد میں الیکشن میں حصہ لینے کی تیاری کرنا ہوگی اور ان کے انعقاد کو یقینی بنانا ہوگا کہ اسی میں جمہوریت کی بقا اور ملک کی فلاح ہے۔ اب یہ الیکشن کمیشن اور اس کے معاون اداروں کا فریضہ ہے کہ انتخابی عمل کو ایسا شفاف بنائیں کہ یہ پاکستان کی تاریخ کے مثالی الیکشن گردانے جائیں۔ کوئی بھی ماضی کی طرح انتخابات پر انگلی نہ اٹھا پائے۔ سب سے اہم فریضہ سیاسی جماعتوں کا ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے ذاتی نہیں اجتماعی قومی مفاد کو پیش نظر رکھیں اور انتخابات کی شفافیت میں خود الیکشن کمیشن کی معاون بنیں۔