جی سیون ممالک کی جانب سے امریکی ٹیرف کی مذمت

June 11, 2018

واشنگٹن: سیم فلیمنگ،کاظم شوببر

گروپ کے سب سے طاقتور رکن کی قابل ذکر عوامی ملامت میں امریکی اتحادیوں نے اس کے اسٹیل اور ایلومینیم پر ٹیرف کی مذمت کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ اس ہفتے جی سیون سے ایک سرد استقبال وصول کریں گے۔

تجارتی جنگ متعدد محاذوں منڈلارہی ہے اور امریکا اور اس کے قریبی شراکت داروں کے مابین تلخ دراڑ منظر عام پر آنے کے ساتھ امریکی صدر اپنے دوسرے جی سیون اجلاس میں شرکت کیلئے کینیڈا جائیں گے ۔

ہفتہ کو جی سیون کے وزرائے خزانہ نے ٹیرف پر غور کیلئے حتمی کارروائی کا مطالبہ کیا اور امریکا کی جانب سے یکطرفہ تجارتی کارروائیوں کے منفی اثرات کو نمایاں کیا۔

دریں اثناء چین اور امریکا اس ہفتے کے اختتام پر تجارت پر کسی معاہدے پر پہنچنے میں ناکام رہے، جیسا کہ امریکی وزیر تجارت ولبر راس نے اتوار کو نائب صدر لیو ہی کے ساتھ کسی پیشرفت کے بغیر مذاکرات کے تیسرے دور کا اختتام کردیا۔

جی سیون جمہوریتوں کا ایک گروہ جس کی جڑیں 1970 کی دہائی تک جاتی ہیں، میں اس طرح کی عوامی تقسیم غیر معمولی ہے،امریکا کی اس کی رکنیت کی طرف سے کافی کم کھلی تنقید جو عام طور پر اس کے ایجنڈے کی رہنمائی میں اہم قوت ہے۔

لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے ممالک کے خلاف تحفظ پسندانہ اقدامات کو جاری رکھنے کا فیصلہ جس نے خود امریکا کے قریبی معاشی اور عسکری شراکت داروں کو مشتعل کیا اور دیگر ممالک کے سیاستدانوں کو خبردار کیا۔

ایک بیان میں کینیڈا کے مالیاتی وزیر بل مورنیو نے کہا کہ بدقسمتی سے اس ہفتے امریکا کی کارروائیاں ان اقدار کو کم کرنے کے خطرے میں ڈالتی ہیں جنہوں نے روایتی طور پر ہمیں جوڑا ہوا ہے۔

مالیاتی وزراء کے اجلاس کے بعد جی سیون کے میزبان ملک کینیڈا کی جانب سے نام نہاد سربراہی سمری جاری کی گئی اور سینٹرل بینکوں نے خدشات کا اظہار کیا کہ قومی سلامتی کی بنیاد پر امریکا اپنے دوستوں اور اتحادیوں پر ٹیرف عائد کئے عالمی معیشت میں آزاد تجارت اور اعتماد کو سبوتاژ کیا۔

وہزلر میں امریکا کی عوامی تنقید نے چارویوکس میں ڈونلڈ ٹرمپ سمیت رہنماؤں کے ہونے والے اجلاس کے خطرے کو مزید بڑھادیا۔ ایسا ہوتا ہے جیسے کینیڈا اور یورپی یونین سمیت اہم امریکی شراکت دار امریکا کے اسٹیل اور ایلومینیم پر ٹیرف عائد کرنے کے فیصلے کے بعد جوابی اقدامات کیلئے تیار ہیں۔

اجلاس کے بعد مسٹر مورنیو نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکا سے باہر اتفاق کیا گی تھا کہ ٹرمہ انتظامیہ کی کارروائیاں ہماری کام کرنے کی صلاحیتوں کیلئے تباہ کن تھیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی وزیر خزانہ اسٹیون منچن سے جی سیون کے شراکت داروں کا افسوس اور مایوسی کا پیغام امریکی صدر کو پہنچانے کا کہا گیا تھا۔

مسٹر منچن نے امریکی شراکت داروں کی جانب سے ظاہر کئے گئے جذبات کو تسلیم کیا لیکن اجتماع کے بعد اصرار کیا کہ امریکا عالمی معیشت کی سربراہی کی اپنی پوزیشن سے دستبردار نہیں ہورہا تھا۔ ایک پریس کانفرنس میں دسمبر میں ریپبلکنز کی زیر قیادت ٹیکس کٹوتی کے بعد حالیہ بحالی کی قوت کا حوالی دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے بالکل برعکس مجھے ایسا لگتا ہے کہ امریکا کسی بھی طرح عالمی معیشت میں اپنی قیادت سے دستبردار ہورہا ہے ۔

تاہم اجلاسوں میں مالیاتی وزراء نے بار بار امریکا کو دھات کی درآمد پر لیویز کو نافذ کرنے کے اپنے فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ جاپان کے مالیاتی وزیر طارو آسو نے صحافیوں سے تبصرے میں امریکی اقدام کو شدید افسوس ناک قرار دیا۔فرانسیسی مالیاتی وزیر برونو لی میئر نے جی سکس پلس ون کا طنزیہ حوالہ دیا۔انہوں نے بعد ازاں کہا کہ بات چیت کشیدہ اور مشکل تھی۔ٹوئٹر پر انہوں نے کہا کہ اسٹیل اور ایلومینیم پر امریکی فیصلوں کو ہم نہیں سمجھ سکتے۔ بال امریکی کورٹ میں ہے۔

اٹلانٹک کے دونوں اطراف کے اتحادیوں نے طیش سے امریکا کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کا حوالہ دیا اور گزشتہ جنگوں میں امریکا کے ہمراہ مشترکہ قربانیوں میں حصہ لیا انہوں نے امریکی اقدامات کی مذمت کی۔ برسلز نے کہا کہ امریکی برآمدات پر جوابی ٹیرف نافذ کرے گا اور عالمی تجارتی تنظیم کے سامنے کیس پیش کرے گا۔

تاہم جیسا کہ جی سیون کے مالیاتی وزیر اور مرکزی بینک کے گورنروں کا اجلاس ہفتہ کو ختم ہوا، ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اپنے تجارتی مطالبات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ سالانہ تجارت پر تقریبا آٹھ سو بلین ڈالرز نیچے ہوں تو آپ تجارتی جنگ ہار نہیں سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم اپنے ملک میں ان کی مصنوعات فروخت کرنے پر صفر قیمت لیتے ہیں اور وہ ہماری مصنوعات کی فروخت پر 25،50 حتیٰ کہ سو فیصد چارج کرتے ہیں تو یہ نا انصافی ہے اور اسے مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔یہ آزاد یا منصفانہ تجارت نہیں بلکہ بیوقافانہ تجارت ہے۔

عالمی تجارتی تنظیم کے اعدادو شمار نے امریکی صدر کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ تجارتی وزن اوسط سامان پرامریکی پر 2.4 فیصد لاگو ہوتا ہے جو جاپان کے 2.1 فیصد کے مقابلے میں زیادہ لیکن یورپی یونین کے 3 فیصد اور کینیڈا کے 3.1 فیصد کے قریب ہے۔

وزلر میں بحث سامنے آئی جب امریکی وزیر تجارت ولبر راس نے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اختلافات پر بیجنگ کے ساتھ معاہدے پر پہنچنے کے مقصد سے اس ہفتے کے اختتام پر چین میں مذاکرات کا انعقاد کیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے 50 بلین ڈالر مالیت کے چین کے سامان پر ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی دے کر ہفتے کے آغاز میں اس بحث میں مزید خدشات پیدا کردئیے۔

امریکا اور چین نے دو دن کی بحث مکمل کرنے کے بعد ایک مشترکہ بیان جاری نہیں کیا۔ تفصیلی بیان میں سرکاری شن ہو خبر رساں ایجنسی نے کہا کہ ولبر راس اور ہی لیو نے وضاحت کے بغیر ٹھوس پیشرفت کی ہے۔