بہترین انتقام۔ تعلیم، مزید تعلیم اور بہترین تعلیم

November 04, 2012

موجودہ جمہوریت بہترین انتقام ہے یا نہیں یہ تو ہمیں معلوم نہیں، اس کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی مگر یہ یقیناً ہمیں معلوم ہے کہ چھوٹی بچّی ملالہ پر سفاکانہ حملے کا بہترین انتقام یہ ہے کہ مرکز اور صوبے2015ء تک تعلیم کی مد میں مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا 7فی صد مختص کرنے کے فیصلوں پر عمل درآمد یقینی بنائیں اور پہلے مرحلے میں وفاق اور صوبے موجودہ مالی سال کے بجٹ پر نظرثانی کرتے ہوئے تعلیم کی مد میں مختص کی گئی رقوم دگنا کر کے ان رقوم کو دیانتداری سے استعمال کریں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ فوری طور پر مشترکہ مفادات کی کونسل کا اجلاس بلایا جائے جس میں نہ صرف تعلیمی بجٹ بڑھانے کا فیصلہ کیا جائے بلکہ مرکز اور صوبے یہ عہد بھی کریں کہ موجودہ مالی سال سے ہی ایک مقررہ حد (موجودہ چار لاکھ روپے سالانہ) سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر بلا استثنیٰ ٹیکس نافذ اور وصول کیا جائے گا اور2015ء تک تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کے سات فی صد تک کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد قومی اسمبلی، سینٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں سے اس ضمن میں قراردادیں منظور کرائی جائیں۔ اس حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا کہ ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس نافذ کرنے کے اس فیصلے کے بغیر تعلیمی بجٹ میں مطلوبہ اضافہ کرنے کے عزائم خود فریبی کے مترادف ہوں گے۔ پاکستان کی سلامتی اور معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے یہ فیصلے اب ناگزیر ہو چکے ہیں۔ ایبٹ آباد آپریشن اور سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملوں کے بعد بھی ایسے ہی تند و تیز بیانات دیئے گئے تھے جیسے ملالہ پر حملے کے بعد دیئے جا رہے ہیں، لیکن ان تمام بیانات اور ریلیوں سے عملاً استعماری مقاصد کو ہی تقویت ملی ہے کیوں کہ کرپشن و ٹیکس کی چوری روکنے اور خود انحصاری کی منزل کی طرف پیش قدمی کرنے کی سرے سے کوئی کوشش نہ پہلے کی گئی تھی اور نہ اب پاکستان میں کی جا رہی ہے۔
اب سے12برس قبل 2000ء میں حکومت پاکستان نے عالمی برادری سے یہ عہد کیا تھا کہ 2015ء تک تعلیم کی مد میں جی ڈی پی کا 7فی صد مختص کیا جائے گا۔ موجودہ حکومت نے تمام صوبوں سے اتفاق رائے حاصل کر کے9ستمبر2009ء کو جو تعلیمی پالیسی منظور کی تھی اس میں اس عہد کی تجدید کی گئی تھی کہ2015ء تک تعلیم کی مد میں جی ڈی پی کا 7فی صد خرچ کیا جائے گا۔ یہ امر تکلیف دہ ہے کہ اس پالیسی سے دانستہ انحراف کیا جا رہا ہے کیوں کہ تعلیم کی مد میں زیادہ رقوم مختص کرنے کے لئے طاقتور طبقوں کو ٹیکسوں میں دی گئی غیر منصفانہ چھوٹ واپس لینی پڑتی جس کے لئے حکمران، سیاست دان اور ممبران پارلیمنٹ آمادہ نہیں تھے اور نہ ہیں۔ پاکستان میں سب سے پہلے ہم نے کہا تھا کہ ساتواں قومی مالیاتی ایوارڈ سیاسی بنیاد پر وضع کیا گیا ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ اس ایوارڈ کے بعد صوبوں نے جی ڈی پی کے تناسب سے سماجی شعبے کے اخراجات میں کمی کی ہے جو کہ ایوارڈ کے مقاصد کی نفی ہے۔ یہ معمہ ہے نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا، کہ قومی اسمبلی، سینٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں نے متفقہ پالیسی سے یکسر انحراف کرتے ہوئے سال بہ سال ایسے بجٹ منظور ہی کیوں کئے جن کے نتیجے میں یہ تناسب کم ہی ہوا۔ اگر موجودہ پالیسیاں برقرار رہیں تو پاکستان2015ء تک 7فی صد تو کیا اس کا نصف بھی تعلیم کی مد میں خرچ نہیں کرے گا۔ تعلیم کی مد میں حکومتیں آئین پاکستان کی دفعات 25۔الف، 37/اور 38کی دانستہ خلاف ورزیاں کرتی رہی ہیں۔ آئی ایم ایف جو پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھانے اور عوام پر جنرل سیلز ٹیکس کے نفاذ میں بہت پرجوش رہتا ہے اس معاملے میں عملاً خاموش ہی رہا۔ وطن عزیز میں 50لاکھ بچّے اسکول نہیں جا رہے جن میں66فی صد لڑکیاں ہیں۔ پاکستان میں 62فی صد غریب ترین لڑکیاں اسکول نہیں جا رہیں جب کہ بھارت میں یہ شرح 30فی صد، نیپال میں 22فی صد اور بنگلہ دیش میں 44فی صد ہے۔
وطن عزیز میں تعلیم کے شعبے کو تعلیم تک رسائی کی پست سطح اور معیار کی خرابی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ مختلف حکومتیں تعلیم کے شعبے کو اہمیت دیتی ہی نہیں رہیں۔ سندھ کے وزیر تعلیم مظہرالحق نے اپریل2010ء میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی موجودگی میں کراچی بورڈ کے میٹرک کے امتحان میں اول، دوم اور سوم آنے والے طلبہ کے لئے مجموعی طور پر 60,000 روپے کے انعام کا اعلان کیا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا۔ دہشت گردی کی جنگ سے خیبر پختونخوا میں صرف ایک برس میں 6لاکھ طلبا و طالبات کا ایک سال یا اس سے زائد کا وقت ضائع ہوا اور715/اسکولوں کو نقصان پہنچا۔ یہی نہیں امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں ملالہ کے سیکڑوں ہم وطن معصوم بہن، بھائی شہید، زخمی اور عمر بھر کے لئے معذور ہو چکے ہیں۔ ملالہ پر حملے سے دراصل پاکستان ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کا شکار ہوا ہے اور اس سے ہر پاکستانی کو ملال اور دکھ ہوا ہے۔ یہ بات سوچنے کے لئے بہت کچھ مواد فراہم کرتی ہے کہ اس پاکستانی بچّی کے لئے محبت کا سمندر استعماری طاقتوں کے ان رہنماؤں اور میڈیا کے دل میں بھی ٹھاٹھیں مار رہا ہے جو پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک میں خون کی ہولی کھیلتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ طویل عرصے سے ظالمانہ سلوک روا رکھے ہوئے ہیں یا ان تمام مظالم اور دہشت گردی کی کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان میں تعلیم کے شعبے کی تباہی کا منظر نہ صرف خاموشی سے دیکھتے رہے ہیں بلکہ ان میں کسی نہ کسی حد تک شامل بھی رہے ہیں۔
سوات میں ایک لڑکی کو کوڑے مارنے کی سازش کے تحت بنائی گئی جعلی ویڈیو کی پاکستانی میڈیا نے بھی بڑے پیمانے پر تشہیر کی، جس کے نتیجے میں پہلے سوات اور پھر جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی راہ ہموار ہوئی۔ اس آپریشن کے نتیجے میں وطن عزیز میں دہشت گردی کی وارداتوں اور امریکی ڈرون حملوں میں زبردست اضافہ ہوا اور صرف تین برسوں میں پاکستانی معیشت کو 58/ارب ڈالر کا نقصان ہوا جب کہ اس سے پہلے کے تین برسوں میں معیشت کو 16/ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ ملالہ پر کرائے گئے حملے کو پاکستان کے اسٹیٹ اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کے تعاون سے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنے کے لئے رائے عامّہ ہموار کرنے کے لئے چابکدستی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ دریں اثنا ملک میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں اچانک تیز کر دی گئی ہیں جب کہ عسکریت پسندوں کے دل و دماغ جیتنے کی باتیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ یہ خدشات بھی بڑھتے جا رہے ہیں کہ اول امریکہ، بھارت اور افغانستان گٹھ جوڑ کے نتیجے میں کہیں بھی دہشت گردی کی سنگین واردات کروا کر اور اس کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر حکومت پاکستان کو جواز فراہم کیا جا سکتا ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرے اور دوم پاکستان کی قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت کمزور ہو رہی ہے چنانچہ نادہندگی سے بچنے اور معاشی بحران سے نکلنے کے لئے حکومت یہ موٴقف اپنا سکتی ہے کہ امریکی ڈکٹیشن لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ کرپشن اور ٹیکس کی چوری وغیرہ سے قومی خزانے کو ہونے والے 3300 /ارب روپے سالانہ یا 9/ارب روپے روزانہ کے نقصانات کو ممکنہ حد تک کم کرنے اور بیرونی شعبے میں امنڈتے ہوئے طوفان سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی وضع کی جائے۔ اب یہ ناگزیر ہو گیا ہے کہ ہم وطنوں کو کلاشنکوف نہیں بلکہ کتاب اور قلم دیا جائے۔ معیاری تعلیم اور ووکیشنل ٹریننگ دینے کے لئے مالی وسائل اور مناسب ماحول فراہم کیا جائے، باقی گزارشات انشاء اللہ۔