سسی کا شہر ’’بھنبھور‘‘

June 20, 2018

عثمان ممتاز، کراچی

بھنبھور کے آثار گھارو شہر سے پانچ کلومیٹردور ایک چھوٹے سے پہاڑی سلسلے کے خاتمے پرشروع ہوتی ہوئی زمین کی ایک ایسی محدود اراضی پر موجود ہیں جو آگے سمندر تک چلی جاتی ہے۔ بھنبھور ایک ساحلی شہر تھا جس کی بندرگاہ اپنے دور میں یقیناًمصروف ترین رہی ہوگی ،لیکن اب یہاں دیواروں اور گھروں کی گھسی پٹی بنیادوں کے سوا کچھ نہیں بچا ۔ یہاں کےراجہ بہرمن کی بیٹی سے متعلق سندھ کی رومانوی داستان سسی پنوں کے قصے کا مرکز یہی شہر بھنبھور تھا، پنوں چوں کہ ایک کیچ مکران کا بلوچ شہزادہ تھا اس لئے بلوچ قوم کے لوگوں نے سسی سے پنوں کی محبت کے طور پر مری پہاڑو ں کی ایک چوٹی کا نام بھی بھنبھور رکھا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بھنبھور ایک قدیم شہر ہے جس کا ذکر مختلف تاریخی کتابوں میں کثرت سے ملتا ہے۔ یونانی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب سکندر نے سندھ پر حملہ کیا تھا، تب کراچی کے نزدیک پاتال بندر مشہور تھا جو اصل میں بھنبھورہی تھا۔

سنکنگ میں کھوٹان نامی ایک علاقہ تھا ،جوپہلی صدی عیسوی میں ایران، یونان، چین اور ہندستان کے قافلوں کا تجارتی پڑاؤ ہونے کے ناطے ان کے تہذیبی رابطوں کا بھی اہم مرکزمانا جاتا تھا،یہاں سے دوسری چیزوں کے علاوہ چین کا ریشم روم بھیجا جاتا تھا ،جو کاشغر اور چترال سے دریائے سندھ کے ذریعے بھنبھورکی بندرگاہ سے روانہ کیا جاتا،اس تجارتی راستے کو اس وقت’’ سندھو ریشم ‘‘ راستہ کہا جاتا تھا۔بنیادی طور پر بھنبھور ایک قدیم شہر ہے ،جس کا ذکر یونانیوں اور مصریوں کی پرانی دستاویزوں میں بھی ملتا ہے ۔ یونانیوں نے اپنی کتابوں میں بھنبور کو ’’ بار بائیک ‘‘لکھا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ یہا ں کپاس اور تل دوسرے ملکوں درآمد کیے جاتے تھے۔‘‘

سندھ اور بلوچستان کا ساحلی علاقہ ایک ہزار کلومیٹر سے بھی بڑا ہے ایک دور میں اس ساحلی پٹی پر سیکڑوں چھوٹے بڑے شہر آباد ہوا کرتے تھے، جن میں سے اکثر کے نام آج بھی بڑے مشہور ہیں جیسا کہ دیبل، بھنبھور، شاہ بندر، سونمیانی، کلاچی ، کیٹی بندر، دیبالپور، دھاراجا، گھوڑا باری، وکر بندر، ککرالہ وغیرہ ۔ گوکہ دیبل اور بھنبھور سے متعلق کچھ واقعات و معاملات ملتے جلتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ یہ دونوں ایک ہی شہرکے نام ہوں ۔بھنبھور کی تعمیرات پکی اینٹوں کی معلوم ہوتی ہیں، جہاں دیواریں غیر معمولی طور پر موٹی اور بنیادیں انتہائی گہری تھیں، جنہیں مظبوط رکھنے کے لئے پتھروں کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ مکانات زیادہ تر کچی اینٹوں کے ہیں، پکی اینٹوں کی تعمیرات بہت کم ہیں، بیش تر جگہوں پر چونے کا پلستر بھی کیا ہوا ملتا ہے۔ رہائشی علاقے الگ الگ بلاکوں میں تقسیم تھے،جن میں نہ صرف مکانات صحنوں کے گرد قرینے سے بنے ہوئے ملے ہیں بلکہ سڑکیں اور گلیاں بلاکوں کے درمیان بنائی گئی تھیں۔ مکانوں کے آثار بتاتے ہیں کہ ان کی چھتیں اینٹوں اور لکڑی کےشہتیروں سے بنائی جاتی ہوں گی، جن کی اونچائی دس سے بارہ فیٹ ہوگی۔

جیسا کہ دنیا بھر میں پائی جانے والی تمام قدیم بستیوں کے آثاروں میں دیکھا گیا ہے ،کہ حکمرانوں کے لیے قلعہ بندیاں اور عام رعایا کے لیے فصیلوں سے باہر بستیوں کے آثار ملتے ہیں ،ویسا ہی سندھ کے تمام پرانے شہروں کے آثارات میں نظر آتاہے ۔ بھنبھور کی یہ آبادی بھی رہائشی اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم دکھائی دیتی ہے۔ ایک حصے میں سے انیس فیٹ بلند قلعہ بندی ہے ،جو شمال سے جنوب کی طرف تقریباً بارہ سوفیٹ طویل اور مشرق سے مغرب کی جانب تقریباًدو سو فیٹ چوڑی ہے۔ اس کی تعمیر انتہائی خوب صورتی سے کی گئی ہے،جہاں کہیں کہیں پتھروں پر انتہائی مہارت سے خوبصورت بوٹیاں اور مختلف اشکال تراشی گئی ہیں۔ فصیلوں کو مضبوط بنانے کے لیےمساوی فاصلوں پر بڑے بڑے برجوں اور بھاری بھرکم سنگی پشتوں کے استعمال کے آثار بھی ملتے ہیں۔

قلعےکی فصیل پر تحقیق سے معلوم ہوتاہے کہ اس کی ضخامت اور ساخت کو نہ چھیڑتے ہوئے اس کی تعمیر اور مرمت کے چار مختلف مراحل گزرے ہیں۔ قلعے کی چاردیواری کے تین داخلی دروازے ہیں، جن میں سے مشرقی دروازہ کافی زبوں حالی کا شکار ہے، جس میں کھڑے ہوکر باہر والی تمام بستی کا نظارہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس دروازےکا جھیل کے سیدھے رخ پر ہونے ، اس کی چوڑائی اور خستہ زینوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ شایدکسی دور میں یہاں سے قلعےکے اندر جھیل کا پانی لے جانے کے لیے باربردار جانوروں اور چھوٹے بڑے چھکڑوں کی آمدرفت بھی رہتی ہوگی۔ قلعے کے باقی دودرواز ے نہ صرف بہتر حالت میں ہیں بلکہ ان کی زیبائش کافی خوبصورتی سے کی گئی ہے ۔ دوسراشمال مشرقی دروازہ تقریباً دس فیٹ اور تیسرا جنوبی دروازہ آٹھ فیٹ چوڑا ہے، جس کے دو برج ہیں اور پیچھے ایک ڈیوڑھی بھی موجودہے ۔ اس دروازے کے بالکل سامنے ایک انتہائی شاندار عمارت کے آثار موجود ہیں ،جس کی بنیاد یں مضبوط پتھروں سے بندھی ہوئی ہیں ۔ اس عمارت کے سمندرکی طرف کھلتے ہوئے وسیع و عریض حصے پرتراشیدہ پتھروں سے بنے ہوئے چبوترے اور ستون کی کشادگی دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں پر کشتیاں یا بحری جہازلنگر انداز ہوکر اپنا ساز و سامان اتارا کرتے ہوں گے۔ آثاروں سے ایسا لگتا ہے ،جیسے کچھ عرصہ اس عمارت کے کئی حصے زیر آب رہے ہیں، اس لیے سمندری لہروں اور کھارے پانی سےپہنچنے والا نقصان واضح نظر آتا ہے۔یہاں ایک جھیل کے آثار بھی پائے گئے ہیں، جہاں برساتی نالوں کے ذریعے پانی جمع ہوتا ہوگااور بھنبھور کے باشندے اپنی ضرورتوں کے لیے اسی جھیل کا پانی استعمال کرتے ہوں گے۔ سیلابی پانی جب حد سے زیادہ جمع ہوجاتاہوگا، تو اس کے اثرات سے قلعہ بندی کو بچانے کے لیے جھیل کے کناروں پر مضبوط پشتے بنے ہوئے ملے ہیں۔

شہر کا دوسراحصہ فصیل کی دیوار سے باہرپھیلا ہوا ہے ،جو اس قدیم جھیل کے آثاروں کے شمال مشرق میں دور دور تک گھیرا بندی کیے ہوئے ہے۔ یہ سارا رہائشی علاقہ ہے، جس میں ہر قسم کی تعمیرات ملتی ہیں ۔ اسی حصے کے مشرقی ٹیلوں اور دامن میں ایک قبرستان بھی موجود ہے۔شہری مضافات میں پرانی تعمیر کے میٹھے چشموں کے علاوہ کچھ کنوؤں کے آثار بھی ملے ہیں، جیسا کہ قلعہ کے شمال مشرقی گوشے میں شاندار پتھروں سے تعمیر کی ہوئی محل نما عمارت کے اندر ایک بڑا گول کنواں موجود ہے۔ اس قدر وسیع و عریض جھیل کے ہوتے ہوئے ان کنوؤں کی موجودگی یہ احساس دلاتی ہے کہ شاید سال کے کسی موسم میں جھیل خشک ہوجاتی ہوگی،اس لئے شہریوں نےگزربسر کے لیے متبادل کے طور پر کنویں کھودے۔

یہاں سےکوزہ گری کے کچھ سانچے بھی ملے ہیں، جن پر اقلیدسی اور نباتاتی نقش و نگار وں کے علاوہ حیوانی اور انسانی شکلیں بنی ہوئی ہیں ۔ کچھ برتنوں پر سورج مکھی، ہاتھی اور دیگر شکلیں ملی ہیں۔ یہاں سے ٹھپہ دار اور منقش برتنوں کا بھی بڑا ذخیرہ ملا ہے ، علاوہ ازیں پتھر کے مجسموں کے ٹکڑے ، بیش ترحیوانی اور انسانی مورتیاں ملی ہیں، جن میں مٹی سے بنایا ہوا عورت کاایک خوبصورت خد و خال والاسر ہے۔ یہاں سے پرندوں اور جانوروں کی ابھری ہوئی ساسانی طرز پر بنی تصویریں بھی ملی ہیں۔شہر کی تعمیر ، برتنوں اور ملنے والی دیگراشیاء کے مطالعہ سے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ اس شہر میں چار مختلف تہذیبی و ثقافتی ادوار کی آبادیاں گزری ہیں۔ مثلاً یہاں سے ملنے والے مٹی کے منقش سفیدبرتن اور بھاری نیلے و سبز روغنی برتن اموی دورِ حکومت سے تعلق رکھتے ہیں ، خیال ہے کہ فصیل شہر بھی اسی دور میں بنائی گئی ہوگی۔ یہاں سے ایسے برتن ہاتھ آئے ہیں جن میں سے بعض پر مٹی کا لیپ اور بعض پر چمکیلے سیسے کا صیقل جڑا ہوا ہے ، جو عباسی دور حکومت کی نشان دہی کرتے ہیں،اسی دور کی شروعات میں قلعے کی دیوار کی مرمت ہوئی ہوگی، جب کہ اس دور کے خاتمے تک قلعےکے کئی حصے زبوں حالی کا شکار ہوکر گر گئے ہوں گے۔یہاں سے ملنے والی کچھ اشیا ءسلاطین دور کی بھی نمائندگی کرتی نظر آتی ہیں، جیسا کہ مخصوص چینی کے برتن وغیرہ۔ اس دورمیں قلعےکی گرتی ہوئی دیوارو ں کی دوبارہ تعمیر کی گئی ہوگی۔ چوتھا اور آخری دوربھنبھور کی کی خوشحال آبادی اورشاندار روایتوں کے زوال کا زمانہ تھا ۔

جھیل کے کنارے قلعہ بندی کے دامن میں شہر کے شمالی حصے کی کھدائی سے عمارتوں کے جوادھڑے ہوئے ڈھانچے نمایاں ہوئے ہیں ان میں ایک بڑا ہال، ایک وسیع کمرہ اور چھوٹے کمروں کے دو سلسلے ہیں ۔ یہاں ایک کمرے کی دیواروں اور فرش پر سیاہ چونے کی جھلسی ہوئی استرکاری کے علاوہ تین برتن ایسے بھی ملے جن پر آتشی اثرات دیکھ کر محققین نے کہا کہ یہ کوئی کارخانہ ، بھٹی یا صنعتی عمارت رہی ہوگی جہاں شہر ی آبادی کے لئے ضرورت کی اشیاء بنائی جاتی ہوں گی۔شمال مشرق والے برج کے نزدیک واقع ایک عمارت سے کٹھالی، راکھ اور کوئلے کے ٹکڑے، سیاہ پتھر کے روڑے اور مختلف لوہے کی اشیاء ملی ہیں جن سے گمان ہے کہ شاید یہ کوئی لوہار کا کارخانہ ہوگا۔ علاوہ ازیں ایک چھوٹے سے ٹیلے سے جو یقیناًکوئی کمرہ رہا ہوگا شیشے کے بہت سارے بڑے ٹکڑے ملے جن کی موجودگی بتاتی ہے کہ یہاں شیشہ گری کا کام کیا جاتا ہوگا۔قلعہ بندی کے اندر تقریباً مربع ایراضی پر پھیلی ہوئی ایک مسجد کے آثار بھی ملے ہیں جس کے مشرقی اور شمالی سمت میں کھلنے والے دو بڑے دروازوں میں سے داخلی دروازہ مشرقی معلوم پڑتا ہے، کیوں کہ اس کے ساتھ ایک ڈیوڑھی اور تین سیڑھیاں موجود ہیں ۔

کھدائی کے وقت اس دروازے کے قریب ایک ٹوٹا پھوٹا کتبہ بھی ہاتھ آیا تھا جس پر خطِ کوفی میں ایک تحریر کنندہ تھی ۔ شمالی دروازے کے اندر چوبی چوکٹھے اور دہلیز کے نشانات پائے گئے ہیں، جب کہ مغرب میں ایک چھوٹے دروازے کے آثار بھی موجود ہیں۔اس مسجد کی پتھر سے بنی ہوئی بیرونی دیوار تین سے چار فیٹ چوڑی ہے، جس کے مغربی طرف پتھر کے33ستونوں والا ایک بڑا ایوان ہے، جب کہ تین ا طراف میں دالان اور غلام گردشیں موجودہیں ۔ مسجد کے شمال مشرقی گوشے میں نمازیوں کے لیے وضو کرنے کا چبوترہ موجودہے ،جس پر چونے کا موٹاپلسترکیا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ وضو کا پانی بہہ جانے کے لیے ایک سنگی نالی بھی موجود ہے۔ وہیں سے ٹھکر کے برتنوں کے کچھ ٹکڑے بھی ملے ہیں ،جو شاید وضو کے لیے استعمال کیےجانے والے برتنوں کے ہوں ۔ اسی چبوترے کے فرش پر چراغوں کا ڈھیر ملا تھا۔مسجد کے شمال میں طویل و عریض غلا م گردشوں والی بڑی عمارت کے آثار موجود ہیں جس کے دونوں طرف بیشمار کمروں کی قطاروں کے آثار ہیں۔

مسجد کے مشرق طرف کچی اینٹوں سے بنی ہوئی ایک دوسری عمارت کے کھنڈر بھی موجود ہیں ،چوں کہ ان دونوں عمارتوں سے گھریلواستعمال اشیاءنہیں ملی ہیں ،محققین کا خیال ہے کہ یہ انتظامی عمارتیں جیسا کہ قافلہ سراءِ ، مسافر خانہ ، مدرسہ وغیرہ ہوں گی۔بھنبھور کی کھدائی سے ہندو، اموی، عباسی ، شاکا، پہلوی اورتانگ خاندانوں کے دورِ حکومت کی بیشتر نمائندہ چیزیں ہاتھ آئی ہیں، جن میں خاص دریافتیں مختلف قسموں کے رنگدار برتن ہیں جن پر آبی پرندوں جیسے بطخ، کلنگ، مچھلیوں کے علاوہ سانپ ، لمبی دم والے مور، طلوع ہوتا ہوا سورج بنے ہوئے ہیں ۔ زیادہ تر برتن کھانا پکانے والی ہنڈیاں ، مٹھ والے ڈھکنے، پیالیاں اور پیالے ہیں۔ کچھ منقش برتنوں کے بارے میں ماہروں کا خیال ہے کہ یہ عربوں نے بحیرہ روم کے ساحلی مقامات سے درآمد کئے ہوں گے یا یہ بھی ہو سکتا ہے بھنبھور واسیوں نے یہ فن وہاں سے سیکھا ہو ،چوں کہ شہر بھر میں بیشتر جگہوں سے برتنوں کی بڑی تعداد ہاتھ آئی ہے اس سے اندازہوتا ہے کہ کمہارگری یہاں کے باشندوں کی مقبول ترین صنعت رہی ہوگی۔یہاں سے ہزاروں تانبے اور چاندی کے سکے ہاتھ آئے ہیں ، شیشے کا ایک پیندہ بھی مندر سے ملا ہے۔سندھ کے ہر شہر کی طرح بھنبھور کے متعلق بھی بیش ترتاریخی کتابوں میںیہی افسانوی بات مشہور ہے کہ یہ شہر اپنے حاکم کے کالے گناہوں کی بدولت ایک ہی رات میں تباہ ہوگیا تھا ،بارہویں صدی میں دریائے سندھ نے یہاں سے اپنا رخ تبدیل کیا تھا ، اس لئے خیال کیا جاتا ہے کہ اسی دوران بھنبھور کی تباہی شروع ہوئی ہوگی ،کیوں کہ دریائی گزرگاہ نہ ہونے کے باعث اس کی ساحلی و تجارتی سرگرمیاں ختم ہوگئی ہوں گی۔شہر کے کھنڈرات سے کھدائی کے دوران ملنے والے انسانی ڈھانچے ادھر اد ھر بے ترتیبی سے پڑے ہوئے ملے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کوئی انہونی ، خانہ جنگی یا ہنگامہ ہوا ہوگا۔

کچھ ڈھانچوں کی کھوپڑیوں میں تو تیربھی پیوستہ ملے ہیں۔ شہر کے اکثر حصوں میں راکھ ، کوئلے اور جلی ہوئی اشیاءکے ڈھیر پڑے ملے ہیں ،جس سے لگتا ہے کہ کسی خارجی حملہ آور نے شہر میں آگ لگادی ہو۔یہ بھی گمان کیاجا تا ہے کہ مختلف دور میں آباد ہوکر برباد ہونے کا فلسفہ اس شہر کی تاریخ میں بھی شامل ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شہری زندگی کے آخری وقتوں میں یہاں ایسی کوئی سیاسی یا سماجی بد نظمی پھیل گئی ہو،جس کا سبب خارجی حملہ یا دریا ئے سندھ کا رخ بدلنا بھی ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے یہ وسیع ساحلی شہر تباہ و برباد ہوگیا ، وجہ چاہے ، جو بھی ہو، مگر صدیوں کی روایات کے وارث شہر بھنبھورکےاب بس یہی کھنڈرات باقی ہیں۔