’’یہ سب میری ما ں کی دعا ہے‘‘

June 21, 2018

قاسم کےپھٹے ہوئے کپڑےاور منہ پر خراشیں دیکھ کر میںپریشان ہو گیا ۔میںنے پھر بھی ہلکے پھلکے اندازمیں قاسم سے پوچھا کہ یہ کونسا طریقہ ہے عید منانے کا تم نے اپنا کیا حلیہ بنا رکھاہے۔ قاسم نے بمشکل خود کو سنبھالا اور کہنے لگا یہ جو میرا حلیہ دیکھ رہے ہیں یہ اپنے ہی ہم وطنوں کی دی ہوئی عیدی ہے۔میں نے کہا میں سمجھا نہیں، تو قاسم نےبتایا کہ وہ راولپنڈی کینٹ کے ایک علاقےسے گزر رہا تھا، وہ خو دگاڑی ڈرائیور کر رہا تھا ۔سڑک بہت تنگ تھی پھر تجاوزات اور غلط پارکنگ نے اس سڑک کواور بھی تنگ کر دیا تھا کہ دو کار سواروں ، جس میں کئی نوجوان سوار تھے اور بلند میوزک چل رہا تھا نے سڑک پر ہی گاڑیاں کھڑی کر کے باہر ایک دوسرے سے عید کی مبارک باد کےلیے گلے ملنا شروع کر دیا۔ قاسم بتا رہا تھا کہ مجھے عید ملنے کا یہ طریقہ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ لیکن پھر بھی میں نے صبر کا مظاہرہ کیا اور ہارن تک نہیں بجایا کہ چلو یہ نوجوان ایک دوسرے کو عید مل لیں تو گاڑیاں نکال لیںگے ،میرے پیچھے گاڑیوں کی ایک لمبی قطار لگ چکی تھی لیکن وہ نوجوان عیدکےلیےگلے ملکر اب خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے انہیں ذرا بھی احساس نہیں تھا کہ یوں سڑک کے بیچ گاڑیاں کھڑی کر کے عید ملنے سے ٹریفک جام ہو گیا ہے جب بات برداشت سے باہر ہونے لگی تو میں نے ان نوجوانوں سے کہا کہ جناب آپ اپنی گاڑیاں آگے لے جائیں اور کسی کھلی جگہ گاڑیاں پارک کرے عید مل لیں۔ تا کہ ٹریفک میں رکاوٹ نہ ہو۔ میری یہ معمولی سی بات انہیں بہت گراں گزری اور وہ جواب میں مجھ سے بدتمیزی کرنےلگے بات بڑھی تو انہوںنے مجھے مارنا شروع کر دیا ،میرے کپڑوں کا حال دیکھیں۔ مجھے یہ سب کچھ دیکھ کر دکھ ہوا۔ میں نے قاسم کی دادرسی کی ۔لیکن ہمارے معاشرے میں یہ جاہلیت اور تشدد بہت خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ معمولی سی بات پر ہم دست و گریبان ہو جاتے ہیں مزید بات بڑھتی ہے تو ہم ڈنڈے، سوٹے اور پسٹل نکال لیتے ہیں۔ ٹریفک کا نظام ہمارا ویسے ہی بہت خراب ہے۔ رمضان مبارک کے ماہ میں جب روزہ کھلنے والا ہوتا ہے، آپ شہر میں دیکھیں کہ لوگ کس بے صبری کا مظاہرہ کرتےہوئےڈرائیونگ کر رہے ہوتےہیں، جیسے روزہ رکھ کر انہوںنے کسی دوسرے پربڑا احسان عظیم کر دیا ہے۔ حالانکہ روزہ صبر کا درس دیتاہے لیکن ہم عبادات کی روح تک کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ہماری ٹریفک پولیس جسے بعض اوقات سخت گرمی یا نامساعد موسمی حالات میں کام کرتے دیکھ کر انہیں سیلوٹ کرنے کو بھی دل چاہتا ہے لیکن جس طرح وہ ٹریفک کا نظام چلاتےہیں اسے دیکھ کر بھی افسوس ہوتا ہے۔ اسلام آباد کی ٹریفک پولیس نے تو بس اسپیڈ گن لگا کر یہ سمجھ لیا ہے کہ بہت کام ہو رہاہے۔ سیٹ بیلٹ پر کچھ روز سختی کر کے یا نمبرپلیٹ کے نمو نےیا کالے شیشوں کا چالان کر کے تیر مارا جاتا ہے۔ ٹریفک کے نظام کو اچھے انداز میں چلانے والے ملکوں میں جہاں رات کو بغیر لائٹ کے گاڑی چلانےپر جیل ہے وہاں ہمارے ملک میں یا تو اسے خلاف ورزی کوئی نہیں سمجھتا یا چند سو روپے کا چالان کر کےکہتےہیں ’’جا تیرا رب راکھا‘‘۔ یہاں ٹریفک کی خلاف ورزی یا تو اس وجہ سے ہوتی ہے کہ گاڑیاں چلانے والوں کو ٹریفک کے اصولوں کا پتہ ہی نہیں اور جنہیں پتہ ہے وہ اس لیے خلاف ورزی کرتے ہیں کہ اثر و رسوخ استعمال کر کے چالان ہونےہی نہیں دیںگے۔ اور اگرچلاان ہو بھی گیا تو کون سا لائسنس منسوخ ہو جانا ہے زیادہ سے زیادہ ہزار روپے کا جرمانہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ ہلاکتیں یا لوگوں کی معذوری اور حادثات ٹریفک کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کا چالان چند رٹی رٹائی غلطیوں پر ہوتا ہے۔ ویلنگ کرنے والوں کو پولیس کیا روکے گی یہاں تو ہر دوسرا موٹرسائیکل سوار ویلنگ کرے نہ کرے ،موٹربائیک ویلنگ سے بھی خطرناک انداز میں چلاتا ہے جس سے وہ خود کو بھی اور ساری ٹریفک کو خطرے سے دوچار کر دیتاہے۔ ٹریفک کے نظام کو ٹھیک کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے کیونکہ زیادہ تر ٹریفک جام ،غلط ڈرائیونگ اورزیادہ حادثات ٹریفک اصولوںسے نابلد ہونا ہے اور ساری گڑ بڑ ٹریفک پولیس کا پروفیشنل نہ ہونا ہے۔ بات قاسم کی لڑائی سے شروع ہوئی اور کہاں نکل گئی ۔میں نے قاسم سے پوچھا کہ تم نے انکی گاڑیوں کے نمبر نوٹ کیے ہیں تا کہ پولیس میں انکے خلاف رپٹ کرائی جائے تو قاسم کہنے لگا نمبر نوٹ نہیں کر سکا البتہ ایک گاڑی کے پچھلے شیشے پر بڑا بڑا لکھا ہوا تھا ’’یہ سب میری ماں کی دعا ہے‘‘۔ میں نے آہ بھرتے ہوئے کہا کہ یہ نعرہ تو ہر دوسری گاڑی پر لکھا ہے لیکن کاش ہم اس نعرے کے ذریعے ماں باپ کو عزت دینے کی بجائے اچھے انداز میں گاڑی چلا کر اور دوسروں کا خیال رکھ کر عزت دیں تو نعرہ نہ بھی لکھا ہو دیکھنے والا کہنے لگے کا اچھے ماں باپ کی اولاد ہے۔
twitter:am_nawazish