سر رہ گزر

June 22, 2018

غریبوں کے غمخوار امیر ترین امیدوار
غریبوں کے غمخواروںنے نہایت غریبانہ اثاثے ظاہر کئے تاکہ غریبوںکی خدمت کرنے کے قابل بن سکیں ورنہ باطنی اثاثے اگر ظاہر کرتے تو غریب عوام ان کی ولایت کے قائل ہو جاتے۔ ولایت بھی دوقسم کی ہوتی ہے۔ ایک ولایت ِ سرمایہ دوسری ولایت ِ روحانی۔ بہرحال عوام کی قسمت کے خریدار پھر دستک دے رہے ہیں۔ یہ موسم ہے سستے ووٹرز خریدنے کا اور بعد میں موسم آئے گا انہیں مہنگے داموں بیچنے کا؎
غریبوں کو جو کیش کرتے ہیں
وہی تو یہاں عیش کرتے ہیں
ووٹر کے پاس اب عزت صرف ووٹ کی صورت باقی رہ گئی ہےاور ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ جانفزا گلی کوچوں میں بلند ہو رہا ہے۔ ووٹ کو اب خود ووٹر ہی عزت دے گا اور اپنے اوپر چڑھے ہوئے عزت افزائی کے سارے قرضے چکا دے گا کیونکہ میڈیا نے غریب عوام کو اتنا چھیڑا ہے کہ وہ قبل از وقت بالغ ہو گئے ہیں۔ انتخابات لڑنا غریبوں کے بس کا روگ ہوتا تو بنی گالہ کے دروازوں پر اتنا رش غریب ورکروںکا نہ ہوتا۔ ان کے ہاتھوں میں خالی لوٹے نہ ہوتے۔ ورکرز جنہوں نے اشرافیہ کے مختلف طبقات کو سیاسی لیڈرز بنایا، قوم کے اعصاب پر انہیں کاندھا دے کر بٹھایا، آج رزق ِ دھرنا ہیں۔ ورکرز کو چاہئے کہ اپنا کوئی بنی گالہ، بلاول ہائوس اور جاتی امرا بنائیں، خود کو خود ہی لیڈر بنائیں اور جو اُن کو قیمے والے نان پر ٹرخاتے ہیں انہیں لوہے کےچنے چبوائیں۔ جن کو غریب عوام ووٹ کی عزت پرچی پر چسپاں کرکے پیش کرتے ہیں وہ دل کے بڑے غریب ہوتے ہیں اور غریب ظاہری کمزوری کا بھلے شکارہوں مگر باطنی دولت سے مالامال ہیں۔ غریب ہی غریب کو اٹھائے گا۔
٭٭٭٭٭
کیا انتخابات شفاف ہوں گے؟
گندے منظر صاف ہوںگے، انتخابات شفاف ہوں گے تب درست ہمارے شین قاف ہوںگے۔ ایک طرف غیرشفاف انتخابات کے 70سالہ کہنہ مشق اور دوسری جانب یہ پہلا انتخاب کہ جسے شیشہ بنانے کےلئے انواع و اقسام کی پیش بندیاں۔ بس ایک انجانا سا خدشہ ہے کہ کہیں کسی بند میں اچانک شگاف نہ پڑ جائے۔ دراصل اس ملک کا المیہ رہا ہےکہ یہاں اچھی نیت بمقابلہ بری نیت باہم ستیزہ کار رہی ہے۔ اس لئے کوئی حتماً نہیں کہہ سکتا کہ شفاف پریس اور پرچی چھاپ پریس مقابل نہیں ہوں گے اورنتیجہ یہ نہ ہوکہ؎
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
اور میراووٹ کورا کاغذ تھا کورا ہی رہ گیا کی آوازیں آنے لگیں۔ بنی گالہ کی طرف لوٹے، پیالے، پیالیاں اس لئے رواں دواں ہیں کہ اسے یار لوگ عیار لوگ وزیر اعظم ہائوس سمجھ بیٹھے ہیں۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں نگرانوں نے وسیع پیمانے پر تبادلے کردیئے ہیں۔ سار ےسوراخ بند کئے جارہے ہیں مگر وائرس کو کون روک سکتا ہے؟ وائرل حملے تو ہوںگے۔ ہم پھر بات کرتے ہیں نیت کی جس پر شفاف انتخابات کا دارومدار ہے۔ کروڑوں غریبوں کی کمائیاں جنہوں نےکھائیاں وہ تو کھودیں گے کھائیاں۔ الغرض 25جولائی اگر آگئی اور کوئی یہ دعویٰ نہ کرسکا کہ فلاں جماعت چھاگئی تو پھر دال کے بانٹنے کے لئے پلیٹوںکی جگہ جوتے ہی رہ جائیں گے تاہم وقت ِ دعا ہے کہ کوئی تازہ ہوا چلے دلوںمیں اک لہر سی اٹھے کوئی دیوار بھی نہ گرے۔
٭٭٭٭٭
خالص مزاح کی وفات حسرت ِ آیات
اردو ادب کا عہد ِ یوسفی ختم۔ مشتاق یوسفی انتقال کرگئے۔ مزاح نگاری وہ مشکل ترین فن ہے کہ جس کے لئے سنجیدگی کی تمام وادیاں، گھاٹیاں، چوٹیاں سر کرنا پڑتی ہیں۔ ہم نے اپنے طور پر مشتاق یوسفی کےانداز ِمزاح اور دیگر مزاح نگاروں کی مزاح نگاری میں جگت اور مزاح کا فرق پایا۔ ایک ایسا پھول کہ جسے سونگھتے ہی مسکراہٹ گلے لگالے۔ یہ تھا یوسفی مرحوم کا مزاح جو اردو ادب کا شاہکار ہے۔ وہ تو چلے گئے مگر جا نہ سکے بلکہ اب زیادہ زورسے آتے رہیںگے۔ آج اردو لکھنے بولنے کا جو عالم ہے وہ اسی قدر ہے کہ زبان کو چھوڑیں آپ کو میری بات سمجھ آئی بس یہی کافی ہے۔ کسے خبر کہ لفظوں کی بھی باڈی لینگویج ہوتی ہے، ان کے بھی رویے ہوتے ہیں۔ ایک ہی لفظ مختلف سیاق میں مختلف تاثیر رکھتاہے۔ مشتاق یوسفی کی تحریر نئی پرانی شراب نہیں اس لئے کوئی ہمزاد نہیں رکھتی کہ کوئی نام نہیں دےسکتے مگر دھیرے دھیرے چڑھتی اترتی ہے بلکہ اس میں روحانی مزاح ہے جو روح کو بھی چڑھ جاتی ہے، بدن سے بھی کھیلتی ہے۔ آبگینہ مزاح نگاری میں مشتاق یوسفی پھر پیدا نہ ہوگا۔ چہرہ سنجیدگی بولتا اور تحریر مزاح کرتی۔ ان کا مزاح اور اصلاح اس طرح آمیزہوتے کہ نامناسب پر شرمندہ بھی کر جاتے۔ مزاح ملاوٹ سے پاک مگر شرابوں میں شرابیں ملنے کاخمار لئے ہوئے۔ وہ چلےگئے مگرگویا نہیں گئے۔ اللہ کریم ان کو گوشہ ٔ فردوس میں آسودہ فرمائے تاکہ حورانِ خلد بھی مسکرا پڑیں۔
’’چٹیاں گلاں‘‘
O۔ جمال لغاری کو حلقے کادورہ مہنگا پڑگیا۔ نوجوانوں نے آڑے ہاتھوں لیا۔
اور بھی سیاستدان حلقوں میں جائیں گے اور عوام کے حافظے تیز پائیں گے۔ کارکردگیاں بے حجاب ہوں گی، دورہ حلقے کا ہو یا دل کا، مہنگا پڑتا ہے۔
O۔ چوہدری نثار بارے سوال پر نواز شریف نے منہ پھیر لیا۔
باپ سے پیار بچوں سے نفرت پرباپ خوش نہیں ہوتا۔
O۔ پیپلزپارٹی نے نگران وزیر داخلہ اعظم خان کی تقرری کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائرکردی۔
اس کا مطلب ہے اعظم خان شفاف آدمی ہیں۔
O۔ ارب پتی امیدوار کئی ہیں لاکھ پتی امیدوار کوئی کوئی۔
امیدوار ہنستے ہنستے بیچاری قوم روئی روئی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)