مختصر کہانیاں:

June 27, 2018

یاداشت

بڑےمیاں بہت بھلکڑ ہو گئے ہیں،اس نے گلی میں پاس سے چپ چاپ گذرتےاپنے بوڑھے باپ کی طرف اشارہ کیا۔

اکثر گھر کا راستہ بھول جاتے ہیں،کئی بار کھانا ٹیبل پر رکھارہتا ہے،انہیں کھانا بھی یاد نہیں رہتا،دوائیں ٹوکری میں پڑی رہتی ہیں،کبھی لیتے ہیں کبھی نہیں لیتے،

بڑی عمر بھی ایک عذاب ہے،یاد داشت ہی ٹھکانے نہیں رہتی،

تم تو جوان ہو،

میں نے اس کے سر کی طرف اشارہ کیا،

یادداشت تو تمہاری بھی جواب دے گئی ہے،تم تو ان کا حال تک پوچھنا بھول جاتے ہو۔

قبریں

قبرستان میں بھی کتنی تفریق ہے،

امیر لوگوں کی قبریں،

عالیشان قبریں۔

کسی قبر کا کتبہ سنگ مرمر کا تو کسی کا سنگ ِسرخ کا،لوح پہ تحریر خوش نویس کاتبوں کے ہاتھ کی، خوش نما رنگوں سے مزین۔

درمیانے طبقے کی قبریں سیمنٹ کا کتبہ اوپر چونے کا لیپ، ادھ مٹی لوح، شکستہ مٹے ہوئےحروف،جو پڑھے نہیں جا سکتے

غریب کچی قبریں،بے سروسامان، بے نام و نشا ن جیسے ان کا کوئی والی وارث نہیں۔

رنگو گورکن جب رات کوقبریں کھود کر ہڈیاں چراتا ہے،حکیم بندو خان کو بیچنے کے لئےتونہ جانے کیوںان سے نکلنے والےسب ڈھانچے

ایک جیسے ہوتے ہیں۔

عبادت

وہ مسجد کی طرف تیز تیز چلتا جا رہا تھا ، تکبیر، قضا نہیں کرتا تھا ، راستے میں ایک بوڑھا بھی ڈگمگاتا جا رہا تھاوہ رک گیا۔

بابا جی کےساتھ چلنا شروع ہو گیا ، آہستہ آہستہ خراماں خراماں ، ہاتھ تھام لیا ، مسجد تک ایک رکعت گزر چکی تھی ،

لیکن عبادت کی روح پہلی بار سمجھ آ چکی تھی ، جو خشوع و خضوع اس نماز میں ملا وہ پہلے کبھی نا ملا تھا۔

( انتخاب :احمد حسن)