مائے نی میں کِنوں آکھاں....!!

July 01, 2018

حفصہ صدیقی

’’یا اللہ! آپ کی دُعا کب ختم ہوگی؟‘‘مَیں کب سے امّی کی دُعا ختم ہونے کا انتظار کررہی تھی۔ آخر کار انہوں نے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دُعا ختم کی، تو فوراً بولیں،’’تمہاری باجی کا فون آیا تھا۔ کچھ پریشان تھی، اسی کے لیے دُعا کررہی تھی۔‘‘ انہوں نے حسبِ عادت نرمی سے جواب دیا۔’’آپ کو بس اِک مَیں ہی یاد نہیں رہتی، باقی تو سب کے لیے دُعائیںکرتی رہتی ہیں۔‘‘ مَیں نے بھی حسبِ معمول شکوہ کیا۔’’تم تو سدا بدگمان ہی رہنا۔‘‘ ان کے انداز میںناراضی تھی۔’’کیا کچھ غلط کہا ہے مَیں نے؟ کبھی بھائی جان اور باجی کے لیے دُعا کرتی ہیں، تو کبھی خالہ جانی کے لیے۔ اگر نہیں کرتیں، تو بس میرے لیے ہی نہیں کرتیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے مَیں روہانسی سی ہوگئی تھی۔’’میری گڑیا! کیا یہ بتانا ضروری ہے کہ اب مَیں تمہارے لیے دُعا کررہی ہوں۔‘‘ انہوں نے ’’اب‘‘پر زور دیتے ہوئے کہا۔’’بس، مجھے پتا ہے، آپ میرے لیے دُعا نہیں کرتیں۔‘‘ یہ کہہ کر مَیں دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ کچھ دیر بعد کمرے سے باہر آئی، تو امّی فون پر بات کررہی تھیں۔مَیں اُن کے پاس ہی بیٹھ گئی۔جب کال کچھ طویل ہوگئی، تو مجھے الجھن سی ہونے لگی اور مَیں تنک کر بولی،’’اور کتنی دیر تک بات کریں گی باجی سے، سُنا رہی ہوں گی،وہ اپنی داستانِ غم…۔‘‘امّی نے غصّے سے مجھے دیکھتے ہوئے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اورجب کال منقطع ہوئی، تو ڈانٹتے ہوئے بولیں،’’صبا! تمہیں کچھ اندازہ ہے، وہ کتنی پریشان ہے۔ اگرمجھ سے بات کرنے سے اُسے کچھ تسلی ہو جاتی ہے، تو تمہیں کیا اعتراض ہے؟‘‘ ’’بس آپ کو ایک مَیں ہی آسودہ اور خوش حال نظر آتی ہوں۔ باقی توسب مسائل اور پریشانیوں میں گِھرے ہیں۔‘‘ میرا انداز رو دینے والا تھا۔’’صبا! تمہارا دماغ خراب ہے، اور کچھ نہیں۔‘‘ اب امّی کو واقعی غصّہ آگیا تھا۔’’پتا نہیںکیوں ،کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ آپ کو مجھ سے بالکل بھی محبّت نہیں ہے۔‘‘ ’’ایک تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم ہر وقت اتنی بدگمان کیوں رہتی ہو؟‘‘ ’’مَیں بدگمان نہیں ہوں، مجھے پتا ہے، اسی لیے یہ سب کہتی ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے مَیں نے اپنا سَر اُن کی گود میں رکھ دیا اور وہ ہمیشہ کی طرح میرے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگیں۔پتا نہیں کیوں مَیں امّی کے معاملے میں تھوڑی خود غرض، مطلبی بن جاتی تھی۔

اُس دِن مَیں حسبِ معمول دیر سے اُٹھی اور شور مچاتے ہوئےجلدی جلدی تیار ہو رہی تھی،تو امّی آگئیں۔’’حد ہے صبا، تم صُبح تھوڑا پہلے نہیں اُٹھ سکتی ہوکیا؟ہر روز یہی تماشا ہوتا ہے۔‘‘ امّی کی یہ ڈانٹ بھی روز ہی کا معمول تھی۔ ’’امّی! یہ وین والا بھی تو ایک وقت پر نہیں آتا۔ آج میسیج آگیا کہ وین پندرہ منٹ پہلے آئے گی۔‘‘مَیں نے جواب دیا۔’’اگر تم جلدی اُٹھ جایا کرو، تو یہ مسئلہ ہی نہ ہو۔‘‘ امّی نے سمجھانے کی کوشش کی۔’’آپ کبھی مجھے سپورٹ نہیں کرتیں۔ یعنی غلطی وین والے کی نہیں، میری ہی ہے۔‘‘اس سے پہلے کہ امّی کچھ کہتیں، مَیں بول پڑی ،’’امّی! آج واپسی میں مجھے دیر ہو جائے گی۔‘‘’’کیوں؟‘‘’’وہ ،ہم سب حِرا کے گھر جمع ہوں گے، کمبائن اسٹڈی کے لیے۔‘‘ مَیں نے بتایا۔’’اچھا، پھر واپس کیسے آؤ گی؟ وین تو کالج سے پک کرتی ہے۔‘‘ وہ پریشان ہوگئیں۔’’فرح اور مَیں رکشہ کرکے آجائیں گے۔‘‘مَیں نے بتایا، تو وہ کچھ مطمئن ہوگئیں۔فرح ہمارے گھر سےسے دو گلی چھوڑ کر رہتی تھی۔’’اچھا بیٹا! زیادہ دیر نہیں کرنا۔ تمہیں پتا ہے ناں کہ مجھے گھبراہٹ ہونے لگتی ہے۔‘‘اچھا ٹھیک ہے، کوشش کروں گی کہ جلدی آجاؤں۔ لیکن پلیز، آپ فون مت کیجیے گا۔ تھوڑی بہت دیر سویر تو ہوجاتی ہے۔‘‘ مجھے پتا تھا کہ اگر امّی کو کہا کہ اتنے بجے تک آؤں اور ذرا سا بھی وقت اوپر ہوگیا، تو ان کے فون آنے شروع ہوجائیں گے۔پھر دوستوں کے سامنے بلاوجہ شرمندگی ہوگی۔’’تم نہیں سمجھو گی…۔‘‘ اب اُن کے انداز میں اُداسی تھی۔

اس دِن کالج میں ’’ہفتۂ طلبہ‘‘ کی وجہ سے کلاسز جلدی آف ہوگئی تھیں۔ مَیں نے فوراً خالہ کے گھر جانے کا پروگرام بنالیا۔ خالہ زاد سارہ کالج ہی میں پڑھتی تھی۔ بس ہمارا سیکشن الگ تھا۔ اور اسی وجہ سے اسٹڈی گروپ بھی الگ تھا، لیکن ہماری دوستی اچھی تھی۔ ’’تم نے بڑی خالہ کو فون کرکے بتا دیا ہے کہ ہمارے گھر جا رہی ہو۔‘‘ کالج سے نکلتے ہوئے سارہ نے پوچھا۔’’نہیں تمہارے گھر پہنچ کر بتادوں گی اور پھر بھائی کو بھی فون کرنا ہے، تاکہ وہ آفس سے واپسی میں مجھے پِک کرلیں۔‘‘ ’’بڑی خالہ کو یاد سے فون کرلینا۔ تمہیں پتا ہے ناں، وہ کتنی پریشان ہوجاتی ہیں۔‘‘ سارہ نے تاکید کرنا ضروری سمجھا اور مَیں نے حسبِ معمول کندھے اُچکا دیئے۔خالہ کے گھر جاکر کھانا کھانے کے بعد سارہ کے بیڈ پر لیٹ کر باتیں کرتے ہوئے مجھے نیند آگئی اور سارہ بھی سو گئی۔ خالہ تو دوپہر میں سونے کی عادی تھیں۔ اور وہی ہوا، جس کا ڈر تھا۔ یعنی امّی کو فون کرنا بھول گئی۔ موبائل پر مسلسل بجتی ہوئی بیل سے میری آنکھ کُھلی۔ میری سہیلی رابعہ کا فون تھا۔’’خیریت؟‘‘مَیں نے نیند بَھری آواز میں پوچھا۔’’صبا کہاں ہو تم؟ آنٹی پریشان ہو رہی ہیں اور جب انہیں یہ پتا چلا کہ آج کالج کی جلدی چُھٹی ہو گئی تھی، تو وہ اور بھی پریشان ہوگئی ہیں۔‘‘ ’’اوہ خدایا!‘‘ مَیں نے بستر سے ایک لمبی چھلانگ لگائی اورسارہ کا فون کاٹ کر جلدی سے امّی کا موبائل نمبر ڈائل کیا۔ آدھی ہی بیل پر انھوں نے کال ریسیو کرلی۔’’امّی! آپ اتنا پریشان کیوں ہوجاتی ہیں۔ مَیں کوئی چھوٹی بچّی تو نہیں ، جو گم ہوجاؤں گی۔سارہ کے ساتھ خالہ کے گھر آگئی تھی۔شام تک بھائی کے ساتھ آجاؤں گی‘‘ مجھے ان کی پریشانی پر جھنجلاہٹ ہو رہی تھی۔ گھر پہنچ کر مَیں نے حسبِ معمول ان سے بحث شروع کردی، ’’آپ مجھے ہی فون کرتیں ناں، کتنی شرمندگی ہوئی ہے، مجھے سب سہیلیوں کے سامنے۔ آپ کو کچھ اندازہ ہی نہیں ہے۔‘‘ مجھے ان کی پریشانی پہ غصّہ آرہا تھا۔’’صبا! تم ماں نہیں ہو ناں، اس لیے ایسے کہہ رہی ہو۔‘‘ ان کی آواز میں دُکھ نمایاں تھا۔

’’آج مجھے ڈاکٹر کے پاس بھی جانا ہے، میرے ساتھ چلو گی ناں؟‘‘اُس دِن امّی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور انہیں ڈاکٹر کے پاس جانا تھا۔’’ٹھیک ہے، چلیں، کس وقت جانا ہے؟‘‘ اگرچہ میرا موڈ نہیں تھا، لیکن انکار نہ کرسکی۔’’امّی! مَیں آپ کے ساتھ جا تو رہا ہوں، پھر صبا کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ بھائی کو شاید میرے موڈ کا اندازہ ہوگیا تھا۔’’صبا ساتھ ہوتی ہے، تو مجھے سکون رہتا ہے۔‘‘ امّی کی اس بات پر میرا حیران ہونا بنتا تھا، کیوں کہ مَیں اتنی اچھی بیٹی تو نہیں تھی۔’’کوئی بات نہیں بھائی، مَیں اپنی کتابیں ساتھ رکھ لوں گی۔ اگر ڈاکٹر کا انتظار کرنا بھی پڑا، تو وہیں پڑھ لوں گی۔‘‘میری اس بات پر امّی کے چہرے کا سکون واضح تھا۔ امّی کے چیک اپ کے بعد جب ہم گھر آئے، تو بھائی کافی پریشان لگ رہے تھے، مَیں نے بہت پوچھا، مگر انھوں نے کچھ بتایا نہیں۔ روز بروز امّی کی صحت گرتی ہی جارہی تھی۔’’صبا! آج تم چُھٹی کرلو۔‘‘ اب ہر دوسرے تیسرے دِن امّی کا مجھ سے یہی مطالبہ ہوتا۔ مَیں کبھی ان کی بات مان لیتی، کبھی ٹال جاتی، لیکن اپنی شکایتیں ان کے گوش گزار کرنا کبھی نہیں بھولتی تھی۔

’’امّی! آج میرا پیپر ہے، میرے لیے دُعا کیجیے گا۔‘‘ اُس دِن گھر سے نکلتے ہوئے، مَیں نے حسبِ معمول ان سے دُعا کی درخواست کی۔’’تمہیں کہنے کی ضرورت نہیں ،مَیں ہر وقت تمہارے لیے دُعاگو رہتی ہوں۔‘‘ اُن کے انداز میں خفگی نمایاں تھی۔’’رہنے دیں، آپ کی دُعاؤں کے طلب گار، بلکہ حق دار اور بہت سے ہیں۔پتا نہیں، ہم کس گنتی میں آتے ہیں؟‘‘میری اس بات پر وہ بے ساختہ مُسکرا دیں۔اگر مجھے ذرا سا بھی اندازہ ہوتا کہ وہ اتنی خاموشی سے تمام طلب گاروں اور حق داروں کو چھوڑ کر چلی جائیں گی، تو شاید ایک لمحے کے لیے بھی اُن کو چھوڑ کر نہ جاتی، لیکن موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ مَیں کالج کے لیے نکلی ہی تھی کہ راستے میں بھائی کا فون آگیا کہ ’’صبا! فوراً گھر آجاؤ۔‘‘ اور جب گھر پہنچی،تو وہاں ایک قیامت خیز خبر میرا انتظار کر رہی تھی۔

’’صبا! وہ تم سے بہت محبّت کرتی تھیں۔‘‘ خالہ شاید مجھے تسلی دینے کے لیے کہہ رہی تھیں۔ ’’تمہیں پتا ہے، جتنی دیر وہ مجھ سے فون پر بات کرتیں، زیادہ تر تمہاری ہی باتیں ہوتی تھیں۔‘‘ خالہ کی بات نے مجھے چونکا دیا، میرا تو خیال تھا کہ وہ میرے علاوہ ہر ایک کی بات کرتی تھیں۔مجھے سوچتا دیکھ کر سارہ بولی، ’’ہاں صبا! ابھی پچھلے ہی دِنوں ہی کی تو بات ہے، جب ثروت آنٹی کی بیٹی کی شادی میں بڑی خالہ سے ملاقات ہوئی، تو اُن کی گفتگو کا محور بس تم ہی تو تھیں۔ تمہارے رزلٹ، پڑھائی، مستقبل، اُن سے خفگی اور بدگمانی سے متعلق ڈھیروں باتیں کر رہی تھیں۔مَیں نے کہا، خالہ! لگتا ہے، آپ کی ایک ہی بیٹی ہے، تو ہنستے ہوئے بولیں کہ ہاں، مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ میری صرف ایک ہی بیٹی ہے۔ سب سے چھوٹی ہے ناں، اسی لیے میرے دِل کے سب سے زیادہ قریب ہے۔‘‘اب مزید کچھ سُننے کا حوصلہ نہیں تھا۔ امّی نے تو مجھے بتا دیا کہ انہیں مجھ سے کتنی محبّت تھی، مگرمَیں اب انہیں کیسے بتاؤں…؟؟