سندھ میں پیپلز پارٹی شدید اندرونی اختلافات کا شکار

June 28, 2018

سیاسی جماعتوں نے بھرپور انتخابی مہم کا آغاز کر دیاہے کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہروں حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر، لاڑکانہ، جیکب آباد، کشمور، خیرپور میں سیاسی گہماگہمی بڑھ گئی ہے ٹکٹوں کی تقسیم پر پی ٹی آئی کے کئی رہنما پارٹی سے ناراض ہیں اور انہوںنے پارٹی کے صوبائی صدر عارف علوی کے گھر کے باہر مظاہرہ بھی کیا ہے جبکہ پی پی پی کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے ٹکٹوں کے معاملے پر پارٹی میں اختلافات پائے جاتے ہیں ٹکٹوں پر اختلافات کے سبب پی پی پی کے کئی رہنما آزادحیثیت میں انتخاب لڑرہے ہیں سندھ میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا ہے۔ سیاسی جوڑ توڑکا سلسلہ جاری ہے گرینڈڈیموکریٹک الائنس اور پی پی پی کے درمیان اندرون سندھ کانٹے کے مقابلے کی توقع ہے جبکہ کراچی میں ایم کیوایم، ایم ایم اے ، پی ٹی آئی، پی پی پی اور کسی حدتک پاک سرزمین پارٹی میں ٹاکرا ہوگاکراچی میں قومی اورصوبائی اسمبلی کی 65 جنرل نشستوں کے لیے مجموعی طورپر2172 کاغذات نامزدگی میں سے 1932 کاغذات منظور اور 240 مسترد ہوگئے قومی اسمبلی کی 21 نشستوں کے لیے 570 کاغذات جمع کرائے گئے 490 منظور جبکہ 80 کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے۔سندھ اسمبلی کی 44 نشستوں کے لیے 1602کاغذات جمع کرائے گئے 1442 منظوراور160 مستردکردیئے ۔سندھ میں عام انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے بیوروکریسی میں بھی اکھاڑ پچھاڑ کی گئی سندھ کے 14 سیکریٹریز ،6 کمشنر،37 ڈی سیز ، 2 ایڈیشنل آئی جی اور متعدد ایس ایس پیز کا تبادلہ کردیاگیا ہے انتخابی مہم کے سلسلے میں مسلم لیگ(ن) کےصدرشہبازشریف نے بھی کراچی کا دورہ کیا جہاں انہوںنے متعدد حلقوں میں کارکنوں سے خطاب کیااس بات کا قوی امکان ہے کہ مسلم لیگ(ن) کراچی کی سطح پر ایم ایم اے سے انتخابی اتحاد کرلےجس کے لیے مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے ایم ایم اے نے اس مرتبہ کراچی کی تمام قومی اور صوبائی نشستوں پر امیدوار کھڑے کئے ہیں دوسری طرف گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے رہنماؤں نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ پی ٹی آئی سمیت تمام ہم خیال جماعتوں سے اتحاد ہوسکتا ہے اس ضمن میں حروں کے روحانی پیشوا اور جی ڈی اے کے سربراہ پیرپگاڑا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جی ڈی اے ہم خیال جماعتوں سے اتحاد کرے گی جی ڈی اے اس مرتبہ پی پی پی کو ٹف ٹائم دے گی پی پی کو کئی حلقوں میں مشکلات کا سامنا ہے لاڑکانہ میں جی ڈی اے ، ایم ایم اے اور پی ٹی آئی اتحاد نے پی پی پی کی مشکلات بڑھادی ہیں لاڑکانہ کے پی ایس گیارہ میں پی پی پی کے صوبائیصدر نثارکھوڑو کو عوام نے خطاب نہیں کرنے دیا اور ان کے خلاف نعرہ بازی کی شدید نعرہ بازی کے سبب نثارکھوڑو خطاب کئے بغیر روانہ ہوگئے پاکستان پیپلزپارٹی کو پہلی بار اندرونی مزاحمت کا بھی سامنا ہے جن رہنماؤں کا پارٹی سے 20 تا30 سالہ ناطہ تھا انہوںنے ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی چھوڑدی کراچی ، حیدرآباد، میرپورخاص، نواب شاہ، سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن میں پیپلزپارٹی کے لیے شدید مشکلات سامنے آئی ہیں لاڑکانہ اور قمبرشہدادکوٹ میں سردارچانڈیو اوراس کے بھائی برہان چانڈیو کوٹکٹ دینے کے معاملے پر نوڈیرو ہاؤس کے باہر احتجاج نے پیپلزپارٹی کو چکراکررکھ دیا ہے ہر کوئی آصف علی زرداری اور فریال تالپور پر تنقید کررہا ہے ۔ گھوٹکی میں علی محمدمہر نے قومی اسمبلی کا ٹکٹ واپس کردیا، لاڑکانہ میں نثارکھوڑو کے دست راست اعجازجونیجوصوبائی حلقے جبکہ تھرپارکر میں پارٹی کے سینئررہنما آزاد حیثیت میں انتخابات میںحصہ لے رہے ہیں، پیپلزپارٹی کے اندرونی تنازع کا سب سے زیادہ فائدہ جی ڈی اے کوہورہا ہے۔ گھوٹکی،نوشہروفیروز، تھرپارکر، میرپورخاص، لاڑکانہ، قمبرشہدادکوٹ، عمرکوٹ، کراچی، دادو، جامشورو، بدین، سانگھڑ، ٹنڈوالہیار، ٹنڈومحمدخان، حیدرآباد میں پیپلزپارٹی شدید اندرونی اختلافات کا شکار ہے۔سابق وزیراعلیٰ سندھ اور پی پی پی کے رہنماعلی محمدمہر اور ان کے بڑے بھائی سردارعلی گوہر مہر نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کرکے جی ڈی اے میں شمولیت کا اعلان کرچکے ہیں کراچی میں پی پی پی کے مضبوط گڑھ ضلع ملیر کی 7 نشستوں پر پی پی پی کو جیالوں کی بغاوت کا سامنا ہے جہاں متعدد رہنماؤں نے ٹکٹوں کی تقسیم کو غیرمنصفانہ قرار دے کر آزادحیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ہے پی پی پی کا ووٹ بینک تقسیم ہونے اور اس کا فائدہ دوسرے امیدواروں کو پہنچنے کے خدشے پر قومی اسمبلی کی 3 اورسندھ اسمبلی کی 5 سیٹوں کے لیے نامزد پی پی امیدواروں نے پارٹی قیادت سے مددمانگ لی ضلع ملیر سے پی پی ٹکٹ کے لیے 99 رہنماامیدوار تھے۔ نذیربھٹو، ساجدجوکھیو، مظفر شجر اودیگر کی مخالفت نے پارٹی قیادت کو بھی پریشانی سے دوچار کردیاہے۔ این اے 236 پر پی پی کے جام عبدالکریم جوکھیو کا مقابلہ پی ٹی آئی کے مضبوط تصور کئے جانے والے ڈاکٹر مسرورسیال سے ہوگا جنہیں ناراض پی پی رہنماؤں کی حمایت مل رہی ہے۔ اسی حلقے سے پی پی رہنما قادر بخش کلمتی نے بھی فارم جمع کرائے ہیں تاہم وہ ٹکٹ نہ ملنے پر مایوسی کاشکار ہیں یہاں سے نوازلیگ کے قادربخش بلوچ بھی امیدوار ہیں تاہم نواز لیگ کا ٹکٹ رحیم شاہ کو ملا ہے جنہوںنے کاغذات نامزدگی جمع ہی نہیں کرائے این اے 237 سے پی پی امیدوار حکیم بلوچ کا مقابلہ نواز لیگ کے زین انصاری وپی ٹی آئی کے جمیل سے ہوگا۔ این اے 238 ضلع ملیر میں پی پی امیدوار آغارفیع اللہ سید ہیں جو قائد لیگ سے پی پی میں شامل ہوئے۔ ان کے مدمقابل 2 باغی رہنماحاجی مظفرشجرااور نذیر بھٹو ہیں۔ اے این پی کے شاہی سید بھی یہیں سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ آغارفیع اللہ کا مقابلہ نواز لیگ کے شاہ محمدشاہ ومتحدہ علما کونسل کے اورنگزیب فاروقی ومتحدہ مجلس عمل کے محمداسلم سے ہوگا اس حلقے سے نعیم عادل شیخ کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے جمال ناصر امیدوار ہوں گے پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نذیر بھٹو اور حاجی مظفرشجرا نے مشاورت شروع کردی ہے ضلع ملیر کے 5 صوبائی حلقوں میں سے 4 نشستوں پر پی پی امیدواروں کو پی ٹی آئی ونواز لیگ کے علاوہ اپنے ہی باغی جیالوں سے ٹکراناہوگا۔ادھر میرپورخاص میں ارباب رحیم کی حمایت کے بعد پی ٹی آئی کے شاہ محمودقریشی کی پوزیشن مضبوط ہوگئی ہے۔دادو میں لیاقت جتوئی کی وجہ سے پیپلزپارٹی کے سینئرترین رہنما طلعت مہیسر پی ٹی آئی میں شامل ہوچکے۔ ضلع سکھر میں پیپلزپارٹی کے عبدالغنی کھوسو اور ان کی صاحبزادی شائستہ کھوسو بھی پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے ہیں کشمور میں غالب خان ڈومکی پی پی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں آچکے ہیںضلع لاڑکانہ میں شفقت انڑ بھی پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے ممتازبھٹو پہلے ہی پی ٹی آئی میں آچکے ہیںحیدرآباد اور کراچی میں پی ٹی آئی نے اس مرتبہ کم وقت میں بہتر امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ پیپلزپارٹی کوسندھ میں زبردست دھچکے لگنا شروع ہوگئے۔ بدین کے سابق قومی اسمبلی غلام علی نظامانی کے بعد تھر کے سینئر رہنما عبدالغنی کھوسو اورمیرپورخاص سے سابق صوبائی وزیرعلی نوازشاہ نے بھی آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کردیا۔ ضلع دادو، ضلع گھوٹکی، ضلع بدین، ضلع مٹھی، ضلع نوشہروفیروز، ضلع خیرپور، ضلع سانگھڑ، ضلع میرپورخاص، ضلع حیدرآباد، ضلع عمرکوٹ، ضلع سکھر، ضلع شکارپور ، ضلع لاڑکانہ اور ضلع قمبرشہدادکوٹ میں پیپلزپارٹی کو اپنے ہی سینئررہنماؤں سے شدیدخطر ہ ہے اور اس کا فائدہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کو ہوگا۔