انویسٹرز

November 06, 2012

مجھے اپنے کالموں کے حوالے سے خطوط اور ای میلز کے ذریعے قارئین کی آراء ملتی رہتی ہیں بعض اوقات ایسے خطو ط یا ای میلز بھی ملتی ہیں جن میں مختلف مسائل کا ذکر ہوتا ہے گزشتہ روز مجھے ایک طالب علم کے والد کا خط ملا جسے آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
السلام علیکم
علی معین نوازش صاحب آپ نے کیمرج کے امتحان میں ریکارڈ قائم کرکے ملک کا نام روشن کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ان نوجوانوں کے حوصلے کا بھی باعث بنیں ہیں جن میں صلاحیتیں تو بہت ہوتی ہیں لیکن اعتماد کا فقدان ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ کیمرج کے امتحان میں آپ کے ورلڈ ریکارڈ کے بعد ہمیں نوجوان نسل کی طرف سے بہت ساری کامیابیوں کی خوشخبریاں ملی ہیں۔لیکن میں آپ کی توجہ ایک اہم مسئلے کی طرف دلانا چاہتا ہوں جو شاید آپ کے علم میں نہ ہو۔
اپنے کلاس فیلوز کی طرح میرے بیٹے نے بھی اے لیول کے بعد کسی دوسرے ملک میں داخلہ لے کر تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا چونکہ میرا تعلق ایک متوسط طبقے سے ہے لیکن اس کے باوجود بیٹے کی خواہش کو پورا کرنے اور اس کے بہتر مستقبل کیلئے کوشش شروع کردی۔اخبارات میں آنے والے اشتہارات کی مدد سے میں اور میرا بیٹا بہت سارے ایسے کنسلٹنٹس کے پاس گئے جو بچوں کو بیرون ملک تعلیم کیلئے بھیجتے ہیں ایک فیس کے عوض معاونت کرتے ہیں ۔یہ کنسٹلٹس کیس کو پروسیس کرنے کیلئے پہلے ایک فیس وصول کرتے ہیں اور پھر متعلقہ یونیورسٹی میں داخلے سے لیکر ویزے کے حصول تک معاونت کرتے ہیں۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ کنسلٹنٹس یونیورسٹیوں سے بھی کمیشن لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر کنسلٹنٹ اپنی مرضی کے ملک یا یونیورسٹی کے گن گاتا اور پرموٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے کچھ کا کہنا تھا کہ یوکے بہترین ہے جبکہ کچھ کہتے کہUK چھوڑیں آسڑیلیا کی طرف دوڑیں۔بعض کا کہنا تھا کہ اگر آپ واقعی بچے کے لئے سنجیدہ ہیں تو اسے امریکہ بھیجیں یا کچھ کا کہنا تھا کہ سرجی کن چکروں میں پڑے ہوئے ہیں آج کل کینیڈا کا دور ہے۔خیر ہم ایک ایسے کنسلٹنٹ کے ساتھ جڑ گئے جس نے میرے بیٹے کے چند دوسرے کلاس فیلوز کو بھی UKبھیجا تھا یا وہ ان کے ذریعے جا رہے تھے پہلے تو ان صاحب نے چار ہزار روپے کنسلٹنسی فیس کے طور پر وصول کئے۔ داخلہ فیس کے طور پر میں نے اپنے رشتہ داروں سے بارہ لاکھ روپے اکھٹے کرکے انہیں ایڈوانس فیس بھی دے دی لیکن پھر انہوں نے کہاکہ ویزہ کیلئے بیس لاکھ روپے کی بینک اسٹیٹمنٹ ہونا ضروری ہے اور بیس لاکھ روپے کی یہ رقم کم از کم ایک ماہ تک بینک میں موجود رہنی چاہئے اور چونکہ کچھ انوسٹرز میرے واقف ہیں جویہی کام کرتے ہیں وہ آپ کو سٹیٹمنٹ بنوا دینگے لیکن اس کے عوض ڈیڑھ لاکھ روپے لینگے لیکن اگر آپ خود اس کا بندوبست کرسکتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن سٹوڈنٹ ویزے کے حصول کیلئے اتنی مالیت کی بنک سٹیٹمنٹ ضروری ہے۔میں نے اس کنسلٹنٹ سے کچھ روز کی مہلت لی اور سٹیٹمنٹ کے کوشش کرنے لگا۔ تو مجھے معلوم ہوا کہ بنک سٹیٹمنٹ کا باقاعدہ ایک کاروبار ہے اور بڑے بڑے مالدار لوگ ستر ہزار سے لیکر ڈیڑھ لاکھ روپے تک معاوضہ وصول کرکے یہ اسٹیٹمنٹ بنوا دیتے ہیں جو سو فیصد اصلی ہوتی ہے لیکن سٹیٹمنٹ سے پہلے پارٹی کو بچے کا شناختی کارڈ اور طے شدہ معاوضہ ایڈوانس میں دینا ہوتا ہے اور پارٹی کی ایک اور بھی لازمی شرط ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے بنک کی سٹیٹمنٹ دلوائیں گے جس کے بارے میں میرے جاننے پر مجھے معلوم ہوا کہ اس بنک یا برانچ کا منیجر اس پارٹی کے اعتماد کا ہوتا ہے تاکہ سٹیٹمنٹ حاصل کرنے والی پارٹی بنک سے رقم نہ نکلوا لے۔حالانکہ بینک کی چیک بک یا اے ٹی ایم کارڈ بھی انہی کے پاس ہوتا ہے یوں بیرون ملک تعلیم کے خواہش مند بچوں کو بینک اسٹیٹمنٹ دینے کا یہ کاروبار عروج پر ہے۔یوکے، آسڑیلیا، امریکہ اور کینیڈا کے لئے اصلی لیکن جعلی اسٹیٹمنٹ جاری کرنے کے علیحدہ علیحدہ ریٹس ہیں۔ اسٹیٹمنٹ کے اس لازمی جزو کو پورا نہ کرسکنے کی وجہ سے میرا بیٹا تو باہر نہیں جاسکا لیکن میں یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں ہندوؤں، سکھوں اور دیگر غیر مذہب لوگوں کے نام پر تو سکول اور کالجز موجود ہیں جنہیں بنانے کیلئے ان لوگوں نے اپنی دولت کا عطیہ دیا تھا لیکن ہمارے ہاںآ ج کل جتنا عوام کو تعلیم کے نام پر لوٹا جا رہا ہے شاید اس کی مثال کسی دوسرے ملک میں نہ مل سکے میں چاہتا ہوں کہ آپ اس مسئلے پر بھی کالم لکھیں۔براہ مہربانی اپنے کالم میں میرا نام ظاہر نہ کیجئے گا۔آپ کا مداح ایک والدقارئین آپ نے خط ملاحظہ فرمایا۔میں جانتا ہوں کہ آج کل تعلیم کے نام پر پاکستانی عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے اور ان لوٹنے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔پورے ملک میں مختلف نظام تعلیم چل رہے ہیں کہیں زبان مختلف ہے تو کہیں دین کا نام لیکر لوگوں کیلئے کشش پیدا کی جاتی ہے۔کہیں آرٹ اور کہیں سائنس کے نام پر لوگوں کو بے بے وقوف بنایا جاتا ہے کہیں میٹرک اور کہیں او یا اے لیول کے چکر میں لوگوں کو گھیرا جا رہا ہے۔کہیں تعلیمی اداروں کی عمارت ہی نہیں اور کہیں موسمی حالات کے مطابق گرم اور ٹھنڈے کلاس رومز موجود ہیں۔ اس طرح والدین اپنے بچوں کو بیرون ملک تعلیم دلوانے کے شوق میں نہ صرف بہت بڑا سرمایہ خرچ کر رہے ہیں بلکہ بچوں کی صحیح رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کامستقبل بھی ضائع کر رہے ہیں اور حکومت ہے کہ اس کو تعلیم جیسے اہم معاملے پر دھیان دینے کیلئے نہ فرصت ہے اور نہ رقم خرچ کرنے کیلئے بجٹ ہے۔میری حکومت سے درخواست ہے کہ وہ نہ صرف موثر تعلیمی نظام وضع کرے بلکہ بیرون ملک تعلیم کیلئے جانے والے بچوں کے لئے بھی کوئی پالیسی مرتب کرے کہ ہم ایک دوسرے کے سرخ منہ دیکھ کر تھپڑوں سے اپنے منہ سرخ کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اگر حکومت کی کوئی پالیسی موجود ہو تو اس پر عملدرآمد کرکے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیں۔