الفاظ اور محاوروں کا درست استعمال (تیسری قسط)

July 04, 2018

٭ایک سو چار واں یعنی چہ؟

خاصے عرصے قبل ایک کرکٹ میچ پر رواں تبصرہ کرتے ہوئے مبصر نے بتایا کہ سامعین یہ پاکستان کا ایک سو چارواں میچ ہے۔ بڑا تعجب ہواکہ ریڈیو پر رواں تبصرہ کرنے والے اردو کی گنتی کے بارے میںکتنی کم معلومات رکھتے ہیں۔ خیراب تو بچے اردو کی گنتی مشکل ہی سے سمجھتے ہیں اور اگر آپ کہیںمثلاً’’ سینتیس ‘‘ تو وہ حیران ہوکر پوچھیں گے کہ یہ کیا ہوتا ہے ۔ آپ کہیں کہ ’’تھرٹی سیون‘‘، تو جواب ملے گا ’’انکل‘‘ یوں کہیں نا!لیکن جب ہم بچے تھے تب بھی ہمیں معلوم تھا کہ اردو میں ’’ایک واں‘‘ ،’’دو واں‘‘،’’ تین واں ‘‘اور’’ چار واں‘‘ نہیں ہوتے، بلکہ انھیں پہلا ، دوسرا، تیسرا اور چوتھا کہتے ہیں۔ گویا وہ پاکستان کا’’ ایک سو چوتھا ‘‘میچ تھا۔ اسی طرح ’’ایک سو پہلا ‘‘ہوگا نا کہ’’ ایک سو ایک واں‘‘۔ جیسے انگریزی میں ہوگا’’ فرسٹ ‘‘ناکہ ’’ ونتھ‘‘ ۔اوہو،انکل یوںکہیے نا!

٭ادائی یا ادائیگی؟

اگرچہ ’’ادائیگی ‘‘ لکھنے اور بولنے کا رواج بہت عام ہوگیا ہے اور جو چیز زبان میں رائج ہوجائے، اسے بدلنا مشکل ہوتا ہے لیکن ’’ادائیگی‘‘ اصولاً غلط ہے اور اسے ’’ادائی‘‘ ہونا چاہیے، کیونکہ یہ ’’ادا ‘‘ سے ہے ۔ اور اگر ادا سے ادائیگی ہے تو کیا جدا سے جدائیگی اور خدا سے خدائیگی ہوگا؟ ظاہر ہے کہ جدا سے جدائی ہے اورخدا سے خدائی ہے تو ادا سے ادائی ہوگا ناکہ ادائیگی۔

’’گی‘‘ تو فارسی کا لاحقہ ہے، جو اُن فارسی الفاظ کے آخر میں لگتا ہے، جن کا اختتام ’’ہ ‘‘ پر ہوتا ہو اور اس صورت میں ’’ہ‘‘ کو ہٹا کر ’’گی‘‘ لگاتے ہیں ، مثال کے طور پر سنجیدہ ، رنجیدہ، آمادہ،دیوانہ اور گندہ وغیرہ کے آخر میں سے ’’ہ‘‘ نکال کر ’’گی ‘‘ لگائیں گے تو علی الترتیب یہ اسم ِ کیفیت بنیں گے : سنجیدگی، رنجیدگی، آمادگی، دیوانگی اور گند گی وغیرہ۔

اب یہ بتائیے کہ ادا کے ساتھ ’’گی‘‘کس قاعدے کے تحت لگ سکتا ہے؟ صحیح لفظ ہے ’’ادائی‘‘نہ کہ ادائیگی۔

٭دیہات یا دیہاتوں ؟

عربی میں ایک لفظ ہے ’’دیہہ‘‘ ۔ اس کے معنی ہیں گائوں ، بستی ۔ جمع ہے اس کی ’’دیہات ‘‘ ۔ شان الحق حقی کی فرہنگ تلفظ کے مطابق دیہہ کا ایک املا ’’دہ‘‘ بھی ہے۔اسی طرح اس کی جمع دیہات اور دِ ہات دونوں طرح سے درست ہے۔

یعنی جب یہ کہنا ہو کہ ہمارے گائوں میںتو بجلی نہیں آئی، لیکن آس پاس کے سارے گاوئوں میں آگئی ہے تویوں بھی کہہ سکتے ہیںکہ ہمارے ’’دیہہ ‘‘ میں تو بجلی نہیں آئی لیکن آس پاس کے سارے ’’دیہات ‘‘ میں آگئی ہے۔

یہاں دیہات کی جگہ دیہاتوں بولنایا لکھنا غلط ہوگا ،کیونکہ دیہات تو خود جمع ہے، اس کی اردو کے قاعدے سے مزید جمع بنانا بے تکی بات ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے’’ خیال‘‘ کی جمع خیالات بناتے ہیں تو پھر یوں نہیں کہتے کہ خیالاتوںمیں کھویا ہوا ہے، بلکہ خیالات میں کھویا ہوا ہے یا خیالوں میںکھویا ہوا ہے بولتے ہیں، لیکن اس کا کیا علاج کہ اب ’’لفظ ‘‘کی جمع یعنی ’’الفاظ ‘‘کی بھی جمع الفاظوں بنائی جارہی ہے۔اصولاً کہنا چاہیے ’’لفظوں میں‘‘یا کہیے ’’الفاظ میں‘‘۔ ’’الفاظوں میں‘‘ بولنا یا لکھنا بالکل غلط ہے۔جیسے بعض لوگ بے خیالی یا لاعلمی میں عالم کی جمع یعنی علما کی بھی مزید جمع بناکر اردو میں’’ علمائوں ‘‘بھی بولتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ اسی طرح

’’ دیہات میں‘‘کہنا کافی ہے ، ’’دیہاتوں میں‘‘لکھنا یا بولنا غلط ہے۔

(جاری ہے)