سر رہ گزر

July 07, 2018

منشور اور نیت
ن لیگ کے صدر شہباز شریف نے منشور جاری کر دیا، تفصیلات سب کے سامنے ہیں۔ آج منشور ایک رسمی کارروائی بن کر رہ گیا ہے، دوسری جماعتوں نے بھی رنگ برنگے منشور پیش کر دیئے ہیں مگر اصل منشور نیت ہے اور ترجیحات ہیں، جن کا تعین عام آدمی کی کسی بڑی مشکل کے حل سے ہونا چاہئے، جب کوئی حکومت کام کرتی ہے اور اس کی ٹھنڈک بندئہ مفلس کو محسوس ہوتی ہے تو سمجھ لیں صحیح حکمران چنے گئے، اور صحیح سمت کا تعین ہو گیا ہماری یہ تاریخ رہی ہے کہ منشور پر نہ کوئی چلا اور نہ اس میں کوئی ایسی تربیت سامنے آئی جو عوامی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر قائم کی جاتی، ہم سمجھتے ہیں کہ منشور دیکھ کر اپنے ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کیا جا سکتا، الیکشن میں داخل بڑی جماعتوں کی شخصی کارکردگی کی صلاحیت کو جانچ کر ہی اپنی رائے کا استعمال کرنا چاہئے، کیا آج تک کوئی منشور منڈھے چڑھا ہے؟ کام کرنے اور نہ کرنے والے کا اندازہ لگانا اس لئے بھی مشکل نہیں کہ تینوں بڑی پارٹیوں کی کارکردگی اور طرز حکمرانی ہم اچھی طرح دیکھ چکے ہیں، ایک ترجیحی فہرست ذہن میں بنا کر اپنا ووٹ استعمال کر لیں اور ہاتھ کی پانچ انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتی، اچھی طرح دیکھ لیں آپ کی کسی انگلی سے کس کی زیادہ مماثلت ہے، بس اسی بنیاد پر اپنی رائے داغ دیں، شاید عمل کے لحاظ سے ہم سب ایک جیسے ہی اچھائی برائی تو دنیا بھر کی قوموں میں ہوتی ہے، فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ کون کتنا ڈھیٹ ہے اور کس میں کتنا احساس شرم و ندامت پایا جاتا ہے، ایک سادہ سی مثال ہے کہ جب پیٹ بھر جائے تو ہاتھ کھینچ لینا چاہئے کیونکہ اس کے بعد بھی کھانا جاری رکھیں تو دوسرے کا حصہ کھانے کا آغاز ہو جاتا ہے، یہی وہ خرابی ہے جو غیر معمولی خرابیوں کو جنم دیتی ہے۔ شہباز شریف کا رکن انسان ہیں، وہ طبعاً کچھ کر کے دکھانا چاہتے ہیں اور کر کے دکھایا بھی ہے، البتہ وہ اپنے اس طرز عمل کو پوری حکومت پر کیسے لاگو کرتے ہیں یہ ہے وہ عمل جس سے معاشرتی و معاشی بہتری آتی ہے ہم نے اتنے تجربات کر لئے کہ اب ہم سے نیت بھی مخفی نہیں۔
٭٭٭٭
اردو ہے جس کا نام ہماری قومی زبان ہے
صدر پاکستان ممنون حسین نے کہا ہے:قومی زبان کے بغیر حقیقی تعلیم اور ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کسی ملک کی عالمی برادری میں ریٹنگ دیکھنا ہو تو اس کی قومی زبان کی قدر و منزلت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ملک کتنے پانی میں ہے، زبانیں سیکھنا جاننا ایک بڑی کوالی فیکیشن ہے، مگر ہماری پہچان ہماری قومی زبان اردو ہے، انگریزی قانون اور انگریزی زبان کے غلبے سے جس دن آزاد ہوں گے ہماری آزادی بھی مکمل ہو جائے گی۔ ہمارا احساس کمتری بھی جاتا رہے گا۔ ہم کیوں اپنی بات کو انگریزی جملوں اور لفظوں سے وزنی بنانے کی کوشش کرتے ہیں کیا یہ قومی عزت و ناموس کے حوالے سے مخمل میں ٹاٹ کا پیوند نہیں؟ انگریزی کو اپنے اعصاب پر تو سوار کیا مگر انگریزی زبان جاننے اور لکھنے میں ایک بھی مولانا محمد علی جوہر نہیں پیدا کر سکے۔ ان کے اخبار ’’کامریڈ‘‘ کی زبان کو اہل زبان بھی تسلیم کرتے تھے، مگر وہ جب بھی بولتے نہایت شستہ اردو بولتے، آزادی حاصل کئے 70برس بیت گئے مگر ہماری کارِ سرکار کی زبان انگریزی ہے، تعلیمی اداروں، اسکولوں میں اردو انگریزی دونوں لازمی ہیں اور عربی فارسی جن کے بغیر ہم صحیح اردو بول سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں اختیاری مضمون کا درجہ رکھتی ہیں، یہی وہ سوتیلا پن ہے جو ہمیں ذہنی و فکری طور پر غلامی سے نکلنے نہیں دیتا، کاروبار حکومت انگریزی میں رعب داب انگریزی میں اور اپنی قومی زبان کو یتیم بنا دیا، انگریزی کی جہاں ضرورت پڑے ضرور بولنی چاہئے مگر ہم تو اردو نہ جاننے والے دیہاتی سے بھی بات کرتے ہیں تو انگریزی الفاظ ضرور استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ دیہاتی ہمیں ’’بائو‘‘ سمجھ کر عزت دے، قومی زبان کے ساتھ تو جو کیا سو کیا اپنی مادری زبانوں پر دسترس بھی کھوتے جا رہے ہیں، پنجابی اپنی پنجابی کو جگت کے لئے استعمال کرتے ہیں، صدر محترم کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ قومی زبان کے بغیر حقیقی تعلیم اور ترقی ممکن نہیں، لیکن انہوں نے بحیثیت صدر پاکستان اردو کو کاروبار حکومت میں داخل کرنے کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں کیا، ہمارے با اختیار آخر وعظ نصیحت کیوں کرتے ہیں، کسی اچھی چیز کو عملاً واضح کیوں نہیں کرتے؟
٭٭٭٭
یہ انداز گفتگو کیا ہے؟
عمران خان نے کہا ہے:نواز شریف واپس آئیں اڈیالہ جیل انتظار کر رہی ہے یہ بظاہر تو فقط ایک بیان ہے مگر اس کا انداز، غلط انداز ہے، وہ یوں بھی کہہ سکتے تھے نواز شریف واپس آئیں اور حالات کا سامنا کریں، یہ کہنا کہ اڈیالہ جیل ان کی منتظر ہے یہ سنسنی خیزی اور مبالغہ آرائی ہمارے قومی کریکٹر کا شوقیہ المیہ ہے، جیسے ہم مرے ہوئے چوہے کو بھی بریکنگ نیوز بنا دیتے ہیں، بریکنگ نیوز، بریکنگ ہو نہ ہو دل توڑ ضرور ہوتی ہے اور جب خبر سنتے ہیں وہ ایک مرا ہوا چوہا ہوتا ہے بہت عرصہ پہلے ہم نے ایک حسین دیکھا بے اختیار منہ سے سبحان اللہ نکلا، مگر جب وہ بولا تو ہمیں اپنی تسبیح واپس لینا پڑی، آپ حیران ہوں گے کہ لفظوں کی ادائیگی نے اس کا سارا حسن لوٹ لیا، طلسم حسن ٹوٹ گیا اور آنکھ خود بخود ہی غضِ بصر پر مجبور ہو گئی، خان صاحب نے کیوں اڈیالہ جیل کا نام لیا کیا یہ لفظ عدالتی فیصلے کو ہاتھ میں لینے کا عمل نہیں کوئی جج کسی مجرم کو ایڈالہ جیل بھیجنے کا کہہ سکتا ہے بشرطیکہ قانون اجازت دے مگر کوئی عبداللہ دیوانہ کیسے پرائی شادی کو اپنی شادی قرار دے سکتا ہے، ہمارے یہی رویئے ہی ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں اور ہم کتنے ہی حسین و جمیل کیوں نہ ہوں وہ بن جاتے ہیں جن سے مائیں بچوں کو ڈراتی ہیں، میں ہر روز لکھتا ہوں اور تمام تر کوتاہیوں کے باوجود کوشش ہوتی ہے کہ لفظوں میں معنوی حسن پیدا کیا جائے تاکہ پڑھنے والے کے باطن میں خوبصورت تبدیلی آئے یا اس کے ضمیر کے بدن پر ہلکی سی میٹھی سی خارش ہو اور وہ کھجلا کر اسے رفع دفع کر دے، زندگی، گردش ایام یہ کسی بھی وقت کسی کے دروازے پے دستک دے سکتی ہے۔
٭٭٭٭
تول کے بولو
....Oبابر اعوان:نواز شریف کو 14سال قید اور جائیداد ضبطی ہو سکتی ہے۔
عدالتی فیصلے بارے اندازے لگانا کیا توہین فیصلہ یا عدل نہیں؟
....Oنواز شریف:فواد حسن فواد کی گرفتاری پر دکھ ہوا،
اپنوں کے دکھ پر غم تو ہوتا ہے۔
....O سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے نیب میں پیش ہونے سے انکار کر دیا ان کو شاید فیصلے کا علم ہو گیا۔
....Oپرویز خٹک:نگران کابینہ قبلہ درست کرے ورنہ دھرنا دیں گے،
نہ جائوں سیاں چھڑا کے بیاں
میں رو پڑوں گی میں رو پڑوں گی
....Oجہانگیر ترین :شاہ محمود قریشی سے کوئی اختلاف نہیں،
وضاحت پردہ داری کی غماز ہوتی ہے
....O ن لیگ کے سینیٹر رہنما ظفر علی شاہ، پی ٹی آئی کے جونیئر رہنما بن گئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)