اللہ کے بھید، اللہ ہی جانے

July 15, 2018

1968ء کا یہ چھوٹا سا واقعہ تحیّر کے باعث آج بھی میرے ذہن پر نقش ہے۔ میرے رشتے کے ایک چچا مرحوم بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ اکثراختلافِ رائے کے باوجود اپنے مؤقف پر ڈٹ کر لڑنے جھگڑنے کی بجائے ’’آپ بھی بجا فرماتے ہیں‘‘ کہہ کر بات کا رُخ موڑ دیا کرتے تھے۔ شعر و ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ اللہ والوں سے گہری عقیدت ان کے مزاج کا حصّہ تھی، مگر جعلی پیر فقیروں سے انہیں سخت چڑ تھی۔ ان دنوں میری پوسٹنگ مظفر گڑھ میںنیشنل بینک کی ایک برانچ میں تھی، وہ اپنے کسی کام سے مظفر گڑھ آئے، تو مجھ سے بھی ملنے چلے آئے اور کچھ دیر گپ شپ کے بعد چلے گئے، لیکن پھر تقریباً ایک گھنٹے بعد ہانپتے کانپتے دوبارہ آگئے، ان کا رنگ فق تھا اور بات بھی پوری طرح سے نہیں کر پارہے تھے۔ان کا اچانک ایسی حالت میں واپس آجانا میرے لیے باعثِ تشویش تھا۔

سخت گرمیوں کے دن تھے، مجھے خیال گزرا کہ شاید انہیں لُو لگ گئی ہے۔ میں نے انہیں ٹھنڈا وغیرہ پلایا، کچھ دیر بعد بات کرنے کے قابل ہوئے، تو میں نے کہا کہ ’’میں آپ کو قریبی کلینک لے جاتا ہوں۔‘‘ کہنے لگے ’’نہیں بیٹا، اب میری حالت بہتر ہے، میں بیمار نہیں ہوں، بس تھوڑا گھبرا گیا تھا۔‘‘میں نے پوچھا ’’کیا ہوا، کیا راستے میں کوئی ایکسیڈنٹ دیکھ لیا؟‘‘ میری بات پر وہ پھیکے انداز میں مسکرائے، پھر کچھ دیر خاموش رہ کر کہنے لگے ’’میں ایک عجیب سی سچویشن میں پھنس گیا تھا، تم سے ملنے کے بعد بس اڈے کی طرف جانے لگا، تو چھوٹے قد کے سادہ اور صاف ستھرے لباس میں ملبوس ایک عمر رسیدہ بزرگ نے اچانک مجھے روک کر کہا کہ ’’کیا یہاں کوئی قریب میں قبرستان ہے؟‘‘ میں نے ہاتھ کے اشارے سے قبرستان کا راستہ بتایا، تو انہوں نے کہا ’’میںاس شہر کے راستوں سے ناواقف ہوں، اگر آپ مجھے وہاں تک پہنچادیں، توبڑی مہربانی ہوگی، مجھے ایک اللہ والے کی قبر پر حاضری دینی ہے، آپ کے ساتھ ہی واپس آجائوں گا۔‘‘مجھے چوں کہ کچھ جلدی نہیں تھی۔ سو، بادلِ نخواستہ ان کے ساتھ چل پڑا۔ قبرستان میں گہرا سنّاٹا تھا، ہم دو نفوس کے علاوہ کوئی دوسرا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

وہ ایک کچّی قبر کے سامنے ٹھہرگئے، جس کے کتبے کے حروف بھی مٹے ہوئے تھے۔ انہوںنے اس قبر پر فاتحہ پڑھی، ان کے حق میں جنّت میں بلند درجات کی دعا مانگی، پھر یک لخت مجھے غصے سے گھور کر دیکھا اور کہنے لگا ’’اگر آپ بھی فاتحہ پڑھ لیتے، تو اچھا تھا، آپ نہیں جانتے کہ کتنی بڑی سعادت سے خود کو محروم کر رہے ہیں، یہ بہت بڑے بزرگ کی قبر ہے۔ اللہ کے نزدیک ان کا بڑا رُتبہ تھا، مگر یہ خود کو ظاہر نہیں کرتے تھے۔‘‘ میں ان صاحب سے کچھ چِڑ سا گیا تھا، ان کو رُکھائی سے جواب دیا ’’ہوں گے اللہ والے۔‘‘ انہوں نے غصّے سے کہا ’’ہوں گے نہیں، یقینی طور پر تھے۔‘‘ ان کی قہر آلود نظروں سے بچنے کے لیے میں راہِ فرار اختیار کرنا چاہتا تھا کہ انہوں نے کڑک دار آواز میں کہا ’’تم یہ کہے بغیر ایک قدم نہیں اٹھا پائو گے کہ وہ بہت بڑے بزرگ تھے۔ کہو کہ وہ بڑے بزرگ تھے۔‘‘ میں اس زبردستی پر مزید کھول گیا اور کوئی جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔ تیز دھوپ میں میرا دماغ گرم ہو رہا تھا۔

چند لمحوں بعد ان بزرگ نے ذرا نرم لہجہ اختیار کر کے کہا ’’یہ تو مانتے ہو کہ دنیا کتنی بڑی ہے؟‘‘ میں نے اکتا کر جواب دیا ’’جی بہت بڑی ہے پھر؟‘‘ انہوں نے میری طرف قطعیت سے دیکھتے ہوئے کہا ’’اللہ کے نزدیک یہ ایک نقطے کے برابر بھی نہیں۔‘‘میں نے کہا ’’بجا فرمایا، مگر مجھے کیا، دنیا چھوٹی ہے یا بڑی۔‘‘ میرے اس طرح جواب دینے پر انہیں مزیدجلال آگیا۔ غصّے سے کہنے لگے ’’تمہارا ایمان کم زور ہے، اسے مضبوط کرو، تب میری بات سمجھ سکو گے۔‘‘ میں نے کہا ’’حضرت! آپ کو واپس جانا ہے یا نہیں، ورنہ میں چلا جاتا ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا ’’لگتا ہے، تم نے میری بات غور سے نہیں سنی، تم صدق دل سے یہ کہے بغیر کہ یہ قبر ایک بڑے بزرگ کی ہے، ایک قدم آگے نہیں جاسکو گے، میں اس زمین کو ہلا کے رکھ دوں گا، تم قدم بڑھا کر دیکھ لو۔‘‘ میںنے بے یقینی سے ان کی طرف دیکھا اور جانے کے لیے قدم اٹھایا، تو یک دم میرا سر چکرا گیا، میں سمجھا کہ تیز دھوپ اور گرمی کی وجہ سے چکّر آگیا ہے۔

اسی لمحے ہلکی سی گڑگڑاہٹ سنائی دی اوراس قدر زور دار جھٹکا محسوس ہوا کہ میں گرتے گرتے بچا، میں نے تیز آواز میں کہا ’’آپ درست فرماتے ہیں، یہ قبر واقعی بہت بڑے بزرگ کی ہے۔‘‘ جس کے بعد زمینی جھٹکے رک گئے، لیکن اس بزرگ کے چہرے سے غصّے کے آثار کم نہیں ہورہے تھے، مجھ سے کہا ’’کہو تو پھر زمین ہلادوں۔‘‘ ان کے کہتے ہی میں پھرلڑکھڑا گیا، یوں محسوس ہونے لگا، جیسے میرے پیروں تلے زمین کھسک رہی ہو۔ میں سحر زدہ ہو کر بار بار دہرانے لگا ’’میں مان گیا ہوں، یہ بہت بڑے بزرگ تھے۔‘‘ پھرپلک جھپکتے ہی یہ جھٹکے رُک گئے۔ ان بزرگ نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا ’’چل اب مجھے اڈّے چھوڑ کرآ۔‘‘ میری ذہنی کیفیت عجیب سی ہورہی تھی، میں سحر زدہ سی حالت میں اس بزرگ کو اڈے پر چھوڑنے چل پڑا۔ جب اڈّا قریب آیا، تو انہوں نے کہا ’’بس، اب واپس چلا جا، میں چلا جائوں گا۔‘‘ میں نے ان سے ہاتھ چھڑوایا، میری حالت ایسی نہیں تھی کہ میں فوری سفر کرسکتا، اس لیے واپس تمہارے دفتر کا رُخ کیا۔‘‘

میں نے انہیں حوصلہ دیا کہ’’ ایسے شعبدہ گر لوگ عموماً انسانی ذہن کو اپنے تابع کرکے پریشان کرتے ہیں۔ آپ فکرمت کریں۔ آج میرے ساتھ گھر چلیں، کل میں خود آپ کو بس کے بجائے ٹرین میںبٹھادوں گا تاکہ اپ آرام سے گھر پہنچ جائیں۔‘‘ابھی ہم یہ بات کرہی رہے تھے کہ میرا ایک کولیگ کمرے میں داخل ہوا اور مجھ سے کہنے لگا ’’یار! تم ابھی تک کمرے میں گھسے بیٹھے ہو۔ کچھ دیر پہلے زلزلہ آیا تھا، ہم سب باہر نکل گئے تھے۔ کچھ دیر بعد دوسرا جھٹکا محسوس ہوا۔ اللہ کا شکر ہے کہ سب ٹھیک رہا، تم باہر کیوں نہیں نکلے؟‘‘میں احمقوں کی طرح اسے دیکھتا رہ گیا۔

چاچا جی کا چہرہ فق ہوگیا۔ وہ غالباً خود کواس زلزلے کا مجرم سمجھ رہے تھے۔ میں بھی گم صم ہو گیا تھا۔ چاچا جی کو میں اس روز اپنے ساتھ گھر لے آیا، وہ بہت بے چین دکھائی دے رہے تھے۔ گھر میں میری بیوی نے بھی زلزلے کے دو جھٹکوں کی تصدیق کی اور اگلے روز اخبارات میں بھی یہ خبر چھپی کہ ’’گزشتہ روز مظفر گڑھ میں وقفے وقفے سے زلزلے کے دو جھٹکے محسوس کیے گئے۔‘‘ اگرچہ مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو اس زلزلے کا علم نہیں ہو پایا تھا، مگر زلزلہ واقعی آیا تھا، اور عین اسی وقت آیاتھا، جب وہ پراسرار شخص چاچا سے کہہ رہا تھا کہ وہ اگر اس کااقرار کیے بغیر ایک قدم آگے بڑھے، تو وہ زمین ہلادے گا۔ بہرحال، اللہ کے بھید اللہ ہی جانے، مگر چاچا جی اس واقعے کے بعد بہت بدل گئے تھے۔

(اسد اللہ،لاہور)