ہبل ٹیلی اسکوپ

July 10, 2018

کئی صدیوں سے سائنس داں مختلف پہلوؤں سے نئی، نئی تحقیق ،ایجادات اور انکشافات کرنےمیں مصروف ہیں۔ان ہی کوششوں کے ضمن میں فلوریڈامیںقائم ا سپیس شٹل نامی ادارےنے 24 اپریل 1990 ء کو ہبل ٹیلی اسکوپ متعارف کرائی تھی ۔اس ٹیلی اسکوپ کو ایڈون ہبل نامی سائنسداں نے تیار کیا تھا ۔اسی بناء پر اس کا نام ’’ہبل ٹیلی اسکوپ ‘‘ رکھا گیا ہے۔اس ٹیلی اسکوپ سے 115 سال پہلے آئن اسٹائن کے نظر یہ اضافیت کی تصدیق ہوئی تھی ۔

دسمبر 1995 ء میں صرف چنددنوں میںاس نے ایسی معلومات فراہم کی تھیں،جن کے بار ے میں ماہرین سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔اس کے علاوہ 1999 ء میں ہبل نے ایسا مادّہ در یافت کیا تھاجو ستاروں کی تشکیل کے بعد بچ جاتاہے ،اسے ’’پروپلائیڈر‘‘ کہتے ہیں۔کچھ سال قبل ہبل نے ایک ہزار سے زائد اور بہت زیادہ چمک دار ستاروں کے جھر مٹ کا انکشاف بھی کیا تھا ۔ماہرین کے مطابق اس نے شروعات سے ہی بہترین کارکردگی کا مظاہر ہ کیا ہے ،جس نے ایڈون ہبل اور ملٹن ہمیسن کی ساری پیش گوئیوں اور کام کو سچ ثابت کیا ہے ۔ایک سال میں ہی ہبل نے حیرت کے نئے دروازے کھول دئیے تھے ۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس نے اب تک 1.3 ملین مشاہدے مکمل کیےہیں اور جب سے اس کا مشن شروع ہوا ہے تب سے اب تک یہ تقریباً 15000 سائنسی مقالات کی اشاعت میں مدد کر چکی ہے ۔اس کے زمینی مدار کی رفتار تقریباً 17000 میگا ہرٹز ہے اور اونچائی میں اس کی رفتار 340 میل ہے ۔ہبل ٹیلی اسکوپ کی پوائنٹگ درستی .007 آرک فی سیکنڈ ہے ۔فرینکلن ڈی روزویلٹ نامی خلائی جہاز جب 200 میل کے فاصلے سے خلا سےگزرے گا تو ماہرین کو اُمید ہے کہ ہبل ٹیلی اسکوپ لیزر بیم کی طرح چمکے گی۔ماہرین کے مطابق اس ٹیلی اسکوپ کے پرائمری رر (primary mirror ) کی چوڑائی 2.4 میٹرز یعنی 7 فیٹ ،10.5 انچز ہے اور اس کی لمبائی 13.3 میٹرز یعنی 43.5 فیٹ ہے ،یعنی تقریباً ایک بس کے برابر ہے ۔ اس عظیم در یافت نے صدیوں پرانے تصورات کو بھی رد کر دیا ۔مئی 1994 ء میں سائنس دانوں نے خلا میں موجود ایک بڑے بلیک ہول کا سر اغ لگا یا تھا ۔یہ بلیک ہول پانچ کروڑ 20 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے اور سورج کے مقابلے میں تین ارب گنا وزنی بھی ہے۔

رواں سال ٹیلی اسکوپ نے 13 بلین سال قدیم کہکشاں کی ناقابل یقین تصویر کھینچ کر سب کو حیرانی میں مبتلا کردیا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کی سب سے قدیم کہکشاں ہے اور اس نے ماہرین فلکیات کے لیے تحقیق کے نئے زاویے پیش کیے ہیں۔ ہبل کی ان تصاویر سے سائنس کے اس نظر یے کی بھی تصدیق ہوئی ہے کہ اگر ایک بیضوی کہکشاں کسی دوسری کہکشاں سے ٹکراتی ہے تو اس سے متعدد نئے ستارے جنم لیتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ ٹکرانے والی دونوں کہکشائوں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ۔اس ٹیلی اسکوپ کے ذریعے یہ بھی معلوم ہو اکہ کہکشائوں میں کالے سیاہ گڑھے ’’بلیک ہول‘‘ بھی ہوتے ہیں ،جو کہکشاں میں موجود مختلف اقسام کی دھول اور گیس جذب کرلیتے ہیں ۔ماہرین کے مطابق ایک بلیک ہول ہمارے نظام شمسی کے دس لاکھ سورجوں کے برابر گیس ہضم کرلیتاہے ۔

اس ٹیلی اسکوپ نے ایسی کہکشاں کا مشاہدہ بھی کیا ہے ،جس کو بگ بینگ تھیوری کے 500 ملین سال بعد وقوع پذیر ہوناتھا ۔اس تصویر کی منظر کشی ناسا کے سائنسدانوں نے قدرتی مظاہر ’’گریوٹیشنل لینسنگ ‘ ‘ (Gravitational lensing ) کے ذریعے کی ہے ۔سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ اس قدیم ستارے کےنظام کی تفصیل لوگوں نے کبھی نہیں دیکھی ہو گی ۔ اس embryonic galaxy کو ماہرین کی جانب سے ایس پی ٹی 0615 جے ڈی (SPT0615-JD) کانام دیا گیا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ پہلی کہکشاں ہے جو بگ بینگ تھیوری کے بعد ظہور پذیر ہوئی ہے۔

علاوہ ازیں وہ کہکشائیں جو دنیا سے کافی فاصلےپر ہیں وہ چھوٹے لال دھبوں کی طرح نظر آتی ہیں، تاہم اس کہکشاں کی تفصیل celestial phenomenon کے ذریعے بہت دورسے بھی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ماہرین کے مطابق ہر کہکشاں حل طلب نقطے کی شکل میں بہت زیادہ فاصلے پر ہے ۔ اسٹڈی لیڈ (Study lead) کے مصنف بریٹ سامن کے مطابق یہ ایک بہت اچھی دریافت ہے ،اگر ہم صحیح زاویے میںاس لینس کو استعمال کریں تو بآسانی اس کی تفصیلات معلوم کی جاسکتی ہے ۔ناساکے ماہرین کا کہنا ہے کہ گریوٹیشنل لینسنگ اس وقت واقع ہوتی ہیں جب مضبوط گریوٹیشنل فیلڈ کہکشاں اور ہبل ٹیلی اسکوپ کے درمیان میں ہو اور یہ فیلڈ بالکل محدب عدسے (magnifying glass) کی طرح کام کرتی ہیں ۔کہکشائوں کے اس جھر مٹ کو ایس پی ٹی -سی ایل جے SPT-CLJ06155746 کا نام دیا گیاہے۔یہ شیشہ جھرمٹ کو پھیلاتا اور ٹیلی اسکوپ کو اجازت دیتا ہے کہ وہ نئی تفصیل کا جائزہ لے سکے ۔ علاوہ ازیںکئی سال قبل ہبل نے ایک ہز ار سے زائداور بہت زیادہ چمک دار ستاروں کے جھرمٹ کا انکشاف بھی کیا تھا ۔

بالٹی مورکی جان ہاپکنزیونیورسٹی کے ماہر ہا ئیڈ ر فورڈنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ہبل ٹیلی اسکوپ کے ذریعے پانچ کروڑ نوری سال کی دوری پر واقع کہکشاںایم 87 کے اندر موجودگیس کی ایک ڈسک دریافت کی تھی ،جو کہ 1.93 کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گھومتی ہے ،اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کہکشاں کے مرکز میں 20 لاکھ سورج کے برابر بلیک ہول موجود ہے ۔

نیو جرسی کے ماہرین فلکیات جان ہیکل نے اس ٹیلی اسکوپ کو ٹائم مشین سے تشبیہ دی ہے ،ان کا کہنا ہے کہ اس کی مدد سے ہم ماضی اور مستقبل دونوں میں جھانک سکتے ہیں ۔اس کے ساتھ ایسی کہکشائوں کا بھی مطالعہ کیا ،جن کی تصاویر میں تقریبا ً50 لاکھ ستارے تھےجو ہماری کہکشاں سے 63 ملین نوری سال کے فاصلے پر موجو دہے ۔

ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے ہمیںیہ جاننے میںبھی مدد ملی ہے کہ کہکشائیں کس طر ح وجود میں آتی ہیں۔ حال ہی میں حاصل ہونے والے نتائج کو ما ہرین نے امریکن اسٹرونومل سوسائٹی کی میٹنگ میں پیش کیاہے۔ماہرین کو اُمید ہے کہ آنے والے وقتوں میں اس کی مدد سے مزید تفصیلات حاصل کی جاسکیں گی ۔یہ ناسا کا اب تک کا سب سے کام یاب پر وجیکٹ ہے ۔ یاد رہے کہ مستقبل میں ناسا کے پاس 36 سے زائد ٹیلی اسکوپز ہوں گی ،جن کو خلا میں بھیجا جائے گا ۔