اس ملک کے قائدین اور مسائل دونوں ہی بے شمار!

July 11, 2018

جیسا کہ ہم جانتے ہیں پاکستان پر ’’برا وقت‘‘ آیا ہوا ہے اور میرے حساب سے یہ ’’برا وقت‘‘ اچانک نہیں آیا اس کیلئے برسوںسے زمین تیارکی جارہی تھی۔ شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر گزشتہ آدھی صدی سے پاکستان میں اتھل پتھل ہے۔ یہاںکے تمام ادارے، سوسائٹیاں، سرکاری و غیرسرکاری انسٹیٹیوشن، ایسوسی ایشن، اکیڈمیاں، یونیورسٹیاں، پارٹیاں، سیاسی و مذہبی جماعتیں اور تمام اعلیٰو ارفع قدریںسب گڈمڈ ہیں۔ الٹپلٹ اور اتھل پتھل ہوچکی ہیں۔ آج سیاست میں ہمارا کام یہ تلاش کرنا نہیںہے کہ سچ کیا ہے بلکہ یہ تلاش کرنا ہے کہ وہ سچ کیا ہے جو ہمیںدرکار ہے۔ اس وقت کشور حسین شاد باد آفت زدہ اور مصیبت زدہ ہے لیکن اس مصیبت سے نکلنا تو
درکناریہاں تو اس کے بارے میں غور و فکرہی ناپید ہے اور یہی ہمارا المیہ ہے۔ ارباب اختیارکو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کوئی مطلب نہیں کہ 45فیصد پاکستانی خط غربت سے نیچے آگرے ہیں۔ دو یا تین وقت کی روٹی کی بات تو چھوڑیئے انہیںدن میں ایک باربھی پیٹ بھرکر کھانانصیب نہیںہوتا۔ اور یہ بات طے ہے کہ آدھےسے زائد آبادی اگر بھوکے پیٹ ہو تو کسی بڑی طاقت کو اس پر غالب آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ صورت احوال یہ ہے کہ وطن عزیز اندر سے پوپلا اور کمزور ہوچکا ہے۔ وہ ملک جہاں غربت، بیروزگاری، رشوت ستانی، لوٹ مار، قتل و غارت، دہشت گردی، فرقہ واریت، مذہبی جنونیت سماجی تانے بانے کو ادھیڑتی جارہی ہو وہاںکچھ بھی بعید نہیں۔ کچھ معاملات تو ایسے ہوئے ہیں جن پر قوم (اگر قوم نامی کوئی شے ہے)کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ہم دیار غیر میں رہنے والے لوگ مغربی اقوام کی اٹھنےوالی انگلیوں کی تعداد تک نہیںگن سکتے کہ حکمران ملک اور اس کے عوام کی قیادت یا حفاظت نہیں بلکہ اپنے اقتدار اور مفادات کی حفاظت کررہے ہیں۔اپنی غربت اور ملک کے غریبوں کو مٹارہے ہیں۔ نظم و نسق کامسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ روزمرہ کے مسائل تشویشناک ہوتے جارہےہیں۔نت نئے مسائل، عوامی زندگی کو نت نئے مسائل سے دوچار کررہے ہیںکہ جہاںوسائل نہ ہوں وہاںمسائل پہ مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ مسائل چھیڑنا مسائل پیدا کرنا، مسائل کا رخپھیرنا، اصل مسائل کو دبانا، وسائل (جیسے برےبھلے ہوں) کے باوجود نئے نئے اور پیچیدہ مسائل پیداکرنا اور جو مسئلہ نہ ہو اسے مسئلہ بناکر پیش کرنا حکمرانوں کا خاص فن ہے ورنہ ملک اور معاشرے کے اصل مسائل وہی ہیں جن کا میں اوپر ذکر کرچکا ہوں اور جنہیں دبانے کیلئے مصنوعی مسائل پیدا کئے جارہے ہیں۔
جیساکہ میں نے ابھی اوپر لکھا ہے کہ ہمارا کام یہ تلاش کرنا ہے کہ و ہ سچ کیا ہے جو ہمیں درکار ہے اور بات طے شدہ ہے کہ نظریئے سے وابستگی ہی وہ وصف ہے جس کے ذریعےبرائیوںکو خوفزدہ کیا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں دور حاضر ’’اقدار‘‘ کا نہیں’’اقتدار‘‘ کا زمانہ ہے جس پر ہمیشہ حکمران ’’قابض‘‘ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقدار اس دھرتی سے منہ موڑ چکی ہے، جہالت، تعصبات، انتہا پسندی، استحصال، مذہبی جنونیت، توہمات، لوٹ مار، ڈاکےاور قتل کا سورج ایک دیوتا بن چکا ہے اور یہ دیوتا سوا نیزے پر بھی آسکتا ہے کہ پاکستان کی سرزمین وہ بدقسمت دھرتی ہے جس کے بارے میں اس کے بچے بالے آج تک یہ فیصلہ نہیںکرپائے کہ اسے کیا بننا ہے۔اس دھرتی پر گھر بسانے کیلئے کن اقدار کی ضرورت ہوگی اور یہ کیسا پاکستان ہوگا؟۔ کوئی اسے جاگیرداروں اور وڈیروں کی آماجگاہ مانتا ہے تو کوئی اسے ہاریوںکیلئے جنم لینے والا ملک، کوئی یہاںخلفائے راشدین کا نظام لانا چاہتا ہے توکوئی سوشلسٹمعیشت کا نام لیتاہے، کوئی اسے امریکہ کا بغل بچہ کہتا ہے تو کوئی اسے چینی لے پالک تو کوئی اسلام کا قلعہ۔ کسی نے اس ملک کیلئے بادشاہت کا مشورہ دیا تو کوئی فوجی حکمرانی کو ہی ملک کیلئے بہترین فارمولا تصور کرتا ہے، کوئی یہاں جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا ہے تو کوئی بنیادی جمہوریت کے گن گاتا ہے، کوئی یہاںشریعت نافذکرنا چاہتا ہے تو کوئی تھیوکریسی کا دلدادہ ہے۔ کوئی اس کے تمام مسائل کا حل بھارت دوستی میں دیکھتا ہے تو کوئی بھارت کو دشمن نمبر ایک قرار دیتا ہے۔ کوئی یہاںمغربی جمہوریت اور پارلیمانی نظام کو آزمانا چاہتا ہے تو کوئی مساوات محمدی نافذکرناچاہتا ہے۔
کوئی مکا دکھاکر حکومت کرناچاہتا ہے تو کوئی ہزاروں سال لڑنے کا اعلان کرکے۔ہم پاکستانی ایک ایسے معاشرے میںجی رہے ہیںجو بے مہار اور غیرمشروط ہوچکا ہے، سو یہاںکسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی سیاست کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے کہ یہ بھی اسی ملک کی پیداوارہے، سیاست سے دلچسپی رکھنے والے کھلے عام کہہ رہے ہیںکہ سیاست میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ یہ عجیب میدان ہے کہ اس میںنہ کوئی فعل مکروہ سمجھا جاتا ہے اورنہ ہی کوئی اصول قائم رکھا جاتا ہے، کیا ہم جنگل کے قانون یا جنگل راج میں جی رہے ہیں؟ کیا ہم ایک مہذب سماج کا حصہ نہیںہیں؟ پاکستان بقول شخصے نیوکلیئر طاقت ہے لیکن امن و امان کے حوالے سے وہ تھرڈورلڈتو کیا فورتھ ورلڈسے بھی تعلق رکھتا دکھائی نہیںدیتا۔میرے خیال میں ملک کے استحکام کو باہر سے نہیں اندر سے خطرات لاحق ہیں۔ گزشتہ چند برسوںکے واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ حکومت، حساس ادارے اور خفیہ ایجنسیاں دہشت گردی سے نمٹنے میںنااہل ثابت ہوئی ہیں۔ دہشت گرد جب اور جہاںچاہیں دھماکے کر جاتے ہیں۔ ہماری حساس ایجنسیوں کو خبر تک نہیںہوتی، انہیںیہ بھی معلوم نہیںکہ اصل مجرم کون اور ان کے منصوبے کیا ہیں؟
میرے حساب سے آج ہمیں جن حالات کا سامنا ہے وہ بیرونی دشمن سے تصادم نہیں بلکہ وہ تصادم ہیںجو جہالت، قتل و غارت، انتہا پسندی، ہٹ دھرمی، بے حسی، بیروزگاری اور عدم برداشت کے سبب پیدا ہوئے۔
میںراہ عشق کا تنہا مسافر
کسے آواز دوںکوئی نہیںہے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)