بھارت، عصمت دری چوتھا ’عام جرم‘ ، دہلی’ ریپ‘ کا عالمی مرکز

July 12, 2018

خواتین کے خلاف جرائم میں بھارت دنیا کا خطرناک ملک ہے جہا ں عصمت دری چوتھا عام جرم ہے۔ دہلی ریپ کے حوالے سے دنیاکا مرکز کہلاتا ہے۔2012میں طالبہ گینگ ریپ سے قبل اس حوالے سے کوئی مضبوط قانون نہیں تھا تاہم بھارت سمیت دنیا بھر میں اس واقعے پر شدید ردعمل سامنے آیا اور سخت قانون سازی کی گئی مگر خواتین اور بچیوں کے خلاف اس جرم میں کمی نہیں آئی ۔

سن2012سے2016کے درمیان بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں دگنااضافہ ہوا۔اس عرصے میں ریپ کے حوالے سے متاثرہ خواتین میںچالیس فی صد نو عمر بچیاں تھیں۔ بچوں کو جنسی استحصال سے تحفظ فراہم کرنے والا نومبر 2012 کا تاریخ ساز قانون بھارت کا پہلا جامع قانون تھا۔اس قانون کے بعد پہلے ہی سال بچوں کے جنسی استحصال کی شکایات میں 45 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ۔2016کے آخر تک خواتین کے خلاف مختلف نوعیت کے کیسز کی تعداد1204786ہے جبکہ بھارت میں عدلیہ کے پاس التوا میں پڑے مقدمات کی تعداد9703482 سے زائدہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت میں ریپ کے یومیہ106واقعات سامنے آتے ہیں، ان میں سے ہر دس میں سے چار کم عمر بچے شامل ہیں۔نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق 2016 کے اعداد وشمار کے مطابق ان واقعات میں ملوث95فی صد قریبی رشتہ دار ملوث تھے۔2016میں ریپ کے38947واقعات رپورٹ ہوئے۔ یہ واقعات بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی سے تحفظ کے ایکٹ اور بھارتی ضابطہ فوجداری کے سیکشن376اور اس سے متعلقہ سیکشن کے تحت درج کیے گئے۔36859واقعات میں رشتہ دار ملوث تھے۔2016میں صرف چار مقدمات پر سزا سنائی گئی۔ بھارت میں ریپ کے کیسز میں فردجرم عائد کرنے کی شرح25عشاریہ5فی صد ہے۔

بی بی سی نے کشمیر میں ایک بچی کی عصمت دری اور قتل کے تناظر میں اپنی رپورٹ میں کہا کہ اس وقت وادی میں آٹھ ہزار بچے لاپتہ ہیں۔ بھارت میں صنفی فرق کا یہ حال ہے کہ ہرسو لڑکی کے مقابلے میں112لڑکے ہیں جبکہ عام لحاظ سے یہ شرح سو کے مقابلے میں105لڑکے ہیں۔ لڑکوں کی پیدائش پر ترجیح کا مطلب بھارت میں چھ کروڑ تیس لاکھ لڑکیا ں غائب ہیں۔ نمایاں صنفی فرق کی وجہ سے زیادتی کے کیسز میں اضافہ ہوا۔

دی وائر کے مطابق لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 99فی صد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔2013میں عصمت دری کے26فی صد زیادہ واقعات ہوئے، یہ شرح گزشتہ پندرہ برس میں سب سے زیادہ تھی۔ بھارت میں ایک لاکھ کی آبادی میں ریپ کیسز کی تعداد6عشاریہ3ہے۔ سکم کے علاقے میں یہ تعداد30عشاریہ3جبکہ دہلی میں22عشاریہ پانچ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارے بھارت کو خواتین کے حوالے سے دنیا کا خطرنا ک ملک قرار دیتے ہیں۔

امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز لکھتا ہے کہ 16 دسمبر 2012 کو نئی دہلی میں میڈیکل کی طالبہ کو تین افراد نے بس کے اندر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد چلتی بس سے پھینک دیا تھا۔ زخمی طالبہ 13 دن اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد انتقال کر گئی تھی۔ اس واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور ملک بھرمیں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے جس میں 100 سے زائد افراد زخمی اور ایک شخص ہلاک ہوگیا تھا۔

اس ضمن میں قانون سازی کی گئی ۔بھارت میں 18 سال سے کم عمر کے افراد کو بچوں میں شمار کیا جانے لگا،2012سے قبل بچے کی عمر کی حد سولہ سال تک تھی اور بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف کوئی مخصوص قانون نہیں تھا۔دو دن قبل بھارتی سپریم کورٹ نے میڈیکل کی طالبہ کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے تینوں مجرموں کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے سزائے موت کی توثیق کردی ۔

مجرموں کو دہلی ہائی کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی ۔ اس کیس میں بس ڈرائیور سمیت 6 افراد نامزد تھے جس میں ایک نے جیل میں ہی خودکشی کرلی تھی جبکہ ایک کو 18 سال سے کم عمر ہونے پر تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

اقوام متحدہ کی کرائم ٹرینڈ اسٹیٹسٹکس2013کے مطابق ریپ کسیز جو رپورٹ ہوئے اس میں ایک لاکھ آبادی میں36عشاریہ44 عصمت دری کے واقعات کے لحاظ سے برطانیہ سرفہرست ہے دوسرے پر امریکا 35عشاریہ85،تیسرے پر برازیل 24عشاریہ 44،چوتھے پر فرانس17عشاریہ13،میکسیکو13جب کہ بھارت 5عشاریہ7 واقعات کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر ہے۔ ریپ کیسزکے لحاظ سے ہر سال بھارت 33707واقعات کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

پہلے پر امریکا113695جب کہ دوسرے پر برازیل49929واقعات ہوئے۔