پاکستان سیٹلائٹ کلب میں شامل

July 15, 2018

پاکستان سیٹلائٹ کے میدان میں بہت پیچھے رہ گیا تھا تاہم جنرل پرویز مشرف کے دورِحکومت میں جب یہ ڈاکٹرائن بنا کہ ہر قسم کے خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت حاصل کی جائے گی تو اس وقت یہ گمان تھا کہ ہم سیٹلائٹ پر کام کررہے ہیں یا کام مکمل ہوچکا ہے، 1998ء میں اس وقت کے وزیراعظم سے میں نے کہا تھا کہ سیٹلائٹ کی مدد سے ہم زمین میں دفن خزانے تلاش کرسکتے ہیں تو شاید وزیراعظم نے سپارکو سے رجوع کیا ہو اور انہوں نے یہ بتایاکہ وہ اس پر کام کررہے ہیں، وہ واقعی کام کررہے تھے اسی وجہ سے وزیراعظم روس گئے اور اُن سے سپارکو کے سیارچہ کو خلا میں بھیجنے کی بات کی مگر پاکستانی سیارچہ اور قازقستان لانچنگ اسٹیشن فضا میں داغا نہیں جاسکتا تھا اور روسی اسٹیشن کے مطابق سیارچہ بنانے میں بہت لاگت آتی تھی اس لئے وہ فضا میں نہیں چھوڑا جاسکا، یہاں تک کہ 9 جولائی 2018ء کو پاکستان نے چین کے جیوکوان سیٹلائٹ مرکز سے فضا میں چڑھا دیئے۔ یاد رہے کہ مواصلات کے لئے پاکستان کا پہلے ہی ایک سیارچہ فضا میں موجود ہے، 9 جولائی 2018ء کو فضا میں بھیجے گئے ایک سیارچہ کا نام (PRSS-1) ہے، جو مخفف ہے The Pakistan Remote Sensing Satellite-1 کا یعنی یہ سیارچہ پاکستان کو اس قابل بنا دے گا کہ وہ زمین کی فوٹوز، اُس کے اندر دور تک دیکھنے کی اور معدنی دولت کو تلاش کرنے کے علاوہ پانی کے ذخائر کو ڈھونڈھنے کی صلاحیت سے آراستہ ہے، اس کے علاوہ زراعت کی اقسام اور اُن کا جائزہ، شہری و دیہی منصوبہ بندی، ماحولیات کی مانیٹرنگ اور پانی کے ذخائر کا بندوبست کرسکتا ہے۔
یہ سیارچہ 1200 کلوگرام وزنی ہے اور اس میں اعلیٰ درجے کے بصری آلات لگے ہوئے ہیں جو 640 کلومیٹردوری سے سورج کے ساتھ ہمہ وقت مدار پر کام کرتا رہے گا۔ یہ سیارچہ چین نے پاکستان کے لئے تیار کیا، دوسرا سیارچہ Pak-TES-1A ہے جو مکمل طور پر پاکستان میں تیار ہوا، یہ کم یا درمیانہ درجے کا تجزیہ اپنے مرکز کو بھیجنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ چین پاکستان اقتصادی راہداری پر نظر میں رکھنے اورکسی قسم کے خطرات و رکاوٹوں کی پہلے سے اطلاع دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ Pak-TES-1A مخفف ہے Pakistan Technology Evaluation Satellite-1A، اس کا وزن 285 کلوگرام ہے، اس میں جو بصری آلات لگے ہوئے ہیں، وہ پاکستان کی ضروریات پورا کرنے کے لے مختص ہیں، یہ 610 کلومیٹر کے سورج کے مدار پر موجود رہے گا۔ اس سیارچے کو خلامیں بھیجنے کے بعد پاکستان کے انجینئرز ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے جس کے لئے جستجو جاری تھی، اس ٹیکنالوجی میں بھارت کو ہم پر برتری حاصل تھی جو اب ختم ہوگئی ہے اور اب پاکستان بھی ان 12 ممالک کے کلب کا ممبر بن گیا ہے جو سیٹلائٹ کے کلب اور حساس آلات سے آراستہ ہے جو ساری دنیا میں تبدیلی و تغیر و تحریک و محرک کی ساخت اور اُس کی اصل حقیقت سے واقفیت ممکن بنا دے گا۔
ان سیارچوں کو فضا میں داخل کرنے سے نہ صرف چین اور پاکستان کے تعلقات میں مزید مضبوطی آئی ہے بلکہ بھارت جو پروپیگنڈا کررہا تھا کہ سی پیک کی رفتار میں کافی کمی واقع ہوگئی ہے، وہ دور ہوگی کہ ان سیارچوں نے سی پیک کے راستوں کو اپنے حصار میں لے لیا ہے۔ میں نے ایک مذاکرہ میں ایک مقرر سے سوال کیا تھا کہ 16 اگست 2016ء کو چین نے جو کوانٹم سیارچہ خلا میں داخل کیا ہے ، اُس کی وجہ سے چین نے اپنے آپ کو سائبر حملے سے محفوظ بنا لیا ہے تو کیا سی پیک کو بھی محفوظ بنایا جائے گا۔ اس محقق نے بتایا کہ چین ضرور یہ راستہ محفوط بنانے میں پاکستان کی مدد کرے گا۔ اب یہ تو معلوم نہیں کہ وہ ان سیارچوں سے اس راستے کو محفوظ بنانے میں مدد دے گا یا پھر وہ کچھ اور آلات ہمیں دے گا یا دے چکا ہے تاہم ان سیارچوں کی ساخت اور ان کے حساس آلات کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ ان میں شاید کچھ ایسی صلاحیت موجود ہو۔ اس کے علاوہ ان سیارچوں کی مدد سے معاشی ترقی کی راہ بھی ہموار ہوگئی ہے اور سوشل زندگی میں جو اچانک تغیرات آتے ہیں، اُن کا مناسب بندوبست کرنے کی بھی صلاحیت حاصل کرلی گئی ہے۔ مثال کے طور پر خشک سالی، پانی کی کمیابی یا کہیں بھی غیرضروری اجتماع اور کہیں پر دہشت گردی کا شبہ ہونے پر اس کا سدباب کیا جاسکتا ہے۔ یہی نہیں ہمارے پانی سے بھارتی 6 بلین ڈالر سے زیادہ مالیت کی سالانہ مچھلی پکڑ کر لے جاتے ہیں اُس کو بھی روکا جاسکتا ہے۔ مزید برآں موسمی تغیرات کا پہلے سے علم ہونا اور سیلابوں اور طوفانوںکے آنے کی پہلے سے اطلاع ہوجانے سے نقصانات میں کمی لائی جاسکے گی، پھر امدادی کارروائیوں میں اس سے بہت مدد ملے گی۔
اس سیٹلائٹ کی موجودگی میں صحیح جگہ پر امداد پہنچانے میں بھی مدد ملے گی۔ اگر کسی طوفان کی بروقت اور صحیح اطلاع مل جائے تو بچائو کے اقدامات کئے جاسکتے ہیں سو ان سیارچوں کی مدد سے اب یہ ممکن ہوگیا ہے، ان سیارچوں سے حادثات، قدرتی آفات اور بجلی کی مانگ کم کرنے میں سہولت ہوجائے گی۔ جنگلات کی حالت اور کاربن کی مقدار کی موجودگی کا اندازہ بھی ممکن ہوگیا ہے اور یہ بھی کہ وہ کس مقدار کس رفتار سے زنگ آلود ہورہے ہیں یا تباہ ہورہے ہیں، PRSS-1 سے موسم کی مجموعی صورتِ حال بتانے کی استعداد حاصل ہوجائے گی اور اس کے لئے کسی انجانے سمندری و بحری جہاز یا زمینی سرحد کی گاڑی کا دخول یا خروج پر نظر رکھی جاسکے گی، دوسرے موسموں میں دفاعی لحاظ سے اور دہشت گردی کے مناظر میں بھی یہ پاکستان کے دفاع اور پاکستان کے امن کو برقرار رکھنے میں کافی مدد دیں گے بعد میں عملی کام متعلقہ ادارے کاہوگا کہ وہ اس کو کس قدر مستعدی سے ہونے والی اطلاعات سیارچوں سے حاصل کرتا اور اُن کو کس طرح بروئے کار لاتا ہے ۔ مزید برآں جغرافیائی اطلاعاتی نظام اور اس سے جدید ترین تصویر اور گلوبل پوزیشنگ سسٹم GPs بھی پاکستان کو حاصل ہوجائیں گی جس کی وہ تمنا کرتا رہا ہے۔ موذی امراض پھیلنےسے روکنے میں بھی ان سیارچوں سے مدد مل سکے گی۔ ان سیارچوں کو پاکستان کی معاشی صورتِ حال میں بہتری کے لئے استعمال کیا جاسکے گا۔ گلیشیئر پر نظر رکھنے کا کام بھی ان سیارچوں سے لیا جائے گا کیونکہ 70 فیصد پانی گلیشیئر کے پگھلنے سے ہی تربیلا میں آتا ہے۔ یوں پاکستان دنیا کے جدید ترین ملکوں میں شامل ہوچکا ہے جو ازخود اپنا نظام چلاتے ہیں، اب دوسروں کے سیارچوں کے محتاج نہیںہیں اور امن ہو یا جنگ دونوں صورتوں میں ہمیں ان سیارچوں سے رہنمائی ملتی رہے گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)