ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں نے کانگریس میں دونوں پارٹیوں کو مشتعل کردیا

July 23, 2018

واشنگٹن: سام فلیمنگ اور کورٹنی ویوور

’’ایوان کی مالیاتی خدمات کی کمیٹی میں ریپبلکن چیئر مین جیب ہینسرلنگ نے امریکی وزیر خزانہ اسٹیون منچن کو بتایا کہ امریکی صدر نے اقتصادی معجزوں کو فروغ دیا تھاشاید ناکام ہوجائیں اگر ملک نا ختم ہونے والی بھرپور عالمی تجارتی جنگ میں پھنس جائے گا۔‘‘

’’مسٹر کورکرنے بل تحریر کیاجو ڈونلڈ ٹرمپ کے یکطرفہ تجارتی اختیارات کو واپس لے لے گا اور ٹیرف کا تابع کرے گا جو ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس کی منظوری کیلئے قومی سلامتی کی بنیاد پر متعارف کرائے۔ ابھی تک ریپبلکن قیادت نے مسٹر کروکر کے بل کو ووٹ دینے سے انکار کردیا ہے۔‘‘

ٹرمپ انتظامیہ پر کیپٹل ہل پر جمعرات کو دونوں جماعتوں نے شدید تنقید کی جیسا کہ قانون سازوں نے امریکا کے اہم شرکات داروں کے ساتھ تجارتی جنگ کے نتیجے میں ہوسکتے ان نقصانات کے حوالے سے شدید خدشات کا اظہار کیا۔

باہمی ہم آہنگی کے غیر معمولی مظاہرے میں ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس نے انتظامی حکام کو امریکی معیشت کو درپیش خطرات پر ضرب لگائی، کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ چین اور کینیڈا،میکسیکو اور یورپی یونین سمیت امریکا کے قریبی اتحادیوں دونوں کے خلاف تجارتی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے ریپبلکن چیئرمین باب کورکر نے امریکی صدر پر تجارتی حکمت عملی نہ ہونے اور اپنے اختیارات کا غلط استعمال جیسا کہ انہوں نے اعلان کیا کہ میں نے نہیں سنا کہ ایک بھی سینیٹر کسی زمینی آئیڈیا ،کسی بھی ارضی خیال کے ساتھ واپس آیا،ہم یہ کیوں کررہے ہیں اس بیان کو واضح نہیں کرسکتے، کا الزام لگایا۔

ایوان کی مالیاتی خدمات کی کمیٹی میں ریپبلکن چیئر مین جیب ہینسرلنگ نے امریکی وزیر خزانہ اسٹیون منچن کو بتایا کہ امریکی صدر نے اقتصادی معجزوں کو فروغ دیا تھاشاید ناکام ہوجائیں اگر ملک نا ختم ہونے والی بھرپور عالمی تجارتی جنگ میں پھنس جائے گا۔

کمیٹی کے ڈیموکریٹک درجہ بندی رکن مکین واٹرز نے کہا کہ ٹیرف سے بچنے کیلئے ہارلے ڈیوڈ سن کے چند پروڈکشن بیرون ملک منتقل کرنے کے فیصلے سمیت کاروباری اداروں کا ردعمل امریکی ملازمین اور صارفین کیلئے پریشانی یقینی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کسی منصوبے کے بغیر سامنے آئی ہے کہ وہ کیسے ممکنہ کساد بازاری پر توجہ دے گی، صارفین زیادہ قیمتیں دیں گے اور اس کے نتیجے میں لاکھوں امریکی ملازمتوں سے محروم ہوجائیں گے۔

ایک علیحدہ موقع پر ریپبلن ہاؤس اسپیکر پال ریان تنقید کے کورس میں شامل ہوگئے۔انہوں نے واشنگٹن کے اکنامک کلب کو بتایا کہ ہمیں نئی مارکیٹوں میں امریکی مصنوعات پر پابندی، ملازمتوں کی بیرون ملک منتقلی اور امریکا کے اثرو نفوذ میں کمی کا خطرہ ہے۔جیسا کہ ہمارے جرنلز آپ کو بتائیں گے یہ معاہدے نہ صرف ہماری قومی سلامتی بلکہ ہماری معیشت کے لئے بھی ضروری ہیں۔

اس اعلان کے بعد بے چینی سامنے آئی کہ انتظامیہ لیویز کے گزشتہ دور سے اوپر چین سے 200 بلین ڈالر کی مزید درآمدات پر ٹیرف عائد کرنے کے عمل کو شروع کررہی ہے۔ کاروباری سروے نے حکام کے درمیان بڑھتی ہوئی پریشانی کا شارہ دیا ہے اور وفاقی ذخائر کے حالیہ قیمت ترتیب دینے کے اجلاس سے کے منٹس نے اطلاع دی ہے کہ کچھ کمپنیوں نے سرمایہ کاری کو روکنے یا انہیں کم کردیا ہے۔

مسٹر منچن نے ایوان کی مالیاتی خدمات کی کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ ان کے شعبہ نے سیاسی پالیسوں کے منفی اقتصادی اثرات نہیں دیکھے تھے لیکن یہان تمام مختلف مسائل کے معیشت پر اثرات کی بہت زیادہ مانیٹرنگ کررہا تھا۔

تجارتی کشیدگی پر توجہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ماہ کے آخر میں یورپی یونین کے ساتھ ملاقات کا منصوبہ ہے اور زور دیا کہ حکومت کی غیر ملکی حکومتوں کی جانب سے امریکی مصنوعات پر عائد کئے گئے انتقامی اقدامات کے جواب پر بہت توجہ مرکوز تھی۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ بیجنگ کے ساتھ مذاکرات کی تجدید کے لئے تیار ہے اگر ساختہ تبدیلیوں کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شمالی امریکا کے آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت اولین ترجیح تھے،اب میکسیکو کے انتخابات غیر معمولی ہیں۔

اقتصادی اور کاروباری امور کے وزیر کی معاون منیشا سنگھ کو بھی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی پر ریپبلکن اور ڈیمو کریٹس سے بھی اسی طرح کی معاندانہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ سوالات کی سب سے مشکل لائن مسٹر کروکر کی جانب سے آئی جنہوں نے سماعت کے آغاز میں خبردار کیا کہ منیشا سنگھ کو کینن سنگھ کے بارے میں تھا۔

مسٹر کروکر نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ صدر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کررہے ہیں۔میرے خیال میں صدر بڑے پیمانے پر اختیارات کا غلط استعمال کررہے ہیں۔ جب منیشا سنگھ تجارت پر انتظامیہ کے پانچ ستونوں پر مرتب منصوبے بتاتے ہوئے انتظامیہ کے دفاع کی کوشش کی ، مسٹر کروکر نے جوابی حملہ کیا کہ اس نے ہماری کسی طرح بھی رہنمائی نہیں کی۔

مسٹر کروکر اور سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے ایک اور ریپبلکن رکن جیف فلیک دونوں ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں کے سب سے زیادہ صاف گو ناقد ہیں۔ دونوں نے اس مدت کے اختتام پر ریٹائر ہونے کا اعلان کیا، نے صدر اور ان کی پالیسیوں کے پیچھے لگنے کیلئے زیادہ لچک کا اجازت دی ۔

کیپٹول ہل پر ہنگامہ کے باجود یہ واضح نہیں ہوا کہ کس طرح کانگریس تجارتی پالیسی پر اثرانداز ہوگی۔ بدھ کو سینیٹ نے کانگریس اور کورکر کی جانب سے تحریر کردہ ایک اقدام کی حمایت کی جو کانگریس کو تجارتی پالیسیوں پر بڑے حکم دینے کا منصوبہ ہے۔ یہ شقیں بڑی حد تک علامتی ہیں، اگرچہ اس کی 11-88 کے ووٹوں سے وسیع پیمانے پر منظوری نے کیپیٹل ہل پر تجارتی پالیسیوں کے بارے میں کشیدگی کی گنجائش کو نمایاں کیا ۔

مسٹر کورکرنے بل تحریر کیاجو ڈونلڈ ٹرمپ کے یکطرفہ تجارتی اختیارات کو واپس لے لے گا اور ٹیرف کا تابع کرے گا جو ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس کی منظوری کیلئے قومی سلامتی کی بنیاد پر متعارف کرائے۔ ابھی تک ریپبلکن قیادت نے مسٹر کروکر کے بل کو ووٹ دینے سے انکار کردیا ہے۔

سینیٹ کی سماعت کے دوران مس سنگھ کو خوفزدہ سینیٹروں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے ان کی ریاستوں پر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں کے ہونے والے اثرات پیش کئے۔

ڈیلوریئر سے ڈیمو کریٹ کرس کونز نے کہا کہ لوگ الجھن میں ہیں۔ وہ فکر مند ہیں اور انہیں تشویش ہے۔ اور آپ نے ہم سے صرف دو طرفہ جماعتوں کی بنیاد پر سنا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کے قریب ترین اتحادی حیران اور ناراض تھے۔

نیو میکسیکو سے ڈیموکریٹک سینیٹر ٹام اڈل نے خبردار کیا کہ ان ٹیرف کے ساتھ آپ نیو میکسیکو میں کمپنیوں کا کاروبار بند کرنے جارہے ہیں۔