سفینہ ساحل تک پہنچا دیا

August 08, 2018

قائد اعظم نے مساوی طور پرسیاست میں خواتین کی شرکت کو تسلیم کیا اور انہیں بھی نظم وضبط اور تادیبی

کاروائیوں کا پابند کیا جو مرد اراکین کے ضروری تھیں،

بیگم شائستہ اکرام اللہ کے قلم سے

قائداعظم میموریل لیکچرز کے سلسلے میں کسی کو تقریر کرنے کی دعوت دیا جانا یقینا باعثِ عزت ہے کیونکہ اس کی بدولت اسے قائداعظم کی رفاقت میں گزارے ہوئے دنوں کے اظہار کا موقع ملتا ہے، خواہ یہ رفاقت کم عرصے ہی کی کیوں نہ ہو۔ مجھے یہ عزت محض اس لیے ملی ہے کہ خوش قسمتی سے میں اس خاندان سے تعلق رکھتی ہوں جس کے افراد کا جدوجہد آزادی سے تعلق تھا اور اسی حیثیت سے وہ قائداعظم محمد علی جناح کے لیفیٹننٹ اور پیروکار بھی تھے۔ قائداعظم اس بات پر یقین رکھتے تھے، کہ خواتین کو سیاست میں حصہ لینا چاہیے۔ انھیں اس بات کا خیال اس وقت پیدا نہیں ہوا تھا جب انھوں نے تحریک مسلم لیگ کا آغاز کیا تھا بلکہ وہ تو بہت پہلے سے اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ خواتین کو سیاست میں حصہ لینا چاہیے۔

ہاں! یہ بات بالکل صحیح ہے کہ وہ مشکل مقصد کی حمایت سے کبھی نہیں ڈرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ چند سال بعد انھوں نے ہندوستان میں مسلم اقلیت کے مفادات کے تحفظ کا بیڑہ اٹھایاچونکہ وہ خواتین کے لیے مساوی سیاسی حقوق کے حامی تھے، انھوں نے فوراً ہی خواتین کو بھی اس تحریک میں شامل کر لیا جوا نھوں نے مسلمانان ہند کے لیے شروع کی تھی۔

پٹنہ کا اجلاس

پٹنہ میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے ابتدائی دور کے ایک اجلاس میں ’’مسلم لیگ ویمن سب کمیٹی‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا اور مندرجہ ذیل قرار دادیں منظور کی گئیں، کیونکہ یہ بات ضرور ی ہے کہ خواتین کو ان کی ترقی کے مناسب مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ مسلمانان ہند کی سماجی ، اقتصادی اور سیاسی تحریک آزادی کی جدوجہد میں شریک ہو سکیں، چنانچہ یہ اجلاس طے کرتا ہے کہ آل انڈیا مسلم ویمن سب کمیٹی قائم کی جائے، جس کی اراکین حسب ذیل ہوں گی اور حسب ذیل مقاصد کے پیش نظر انھیں مزید رکن اپنے ساتھ شامل کرنے کا اختیار ہو گا:

ڈسٹرکٹ مسلم لیگ کے تحت صوبائی اور ضلعی ویمن سب کمیٹیوں کا قیام۔

بھاری تعداد میں خواتین کو مسلم لیگ کارکن بنانا۔

تمام ہندوستان کی مسلم خواتین میں زیادہ سے زیادہ سیاسی شعور بیدار کرنے کے لیے زبردست پروپیگنڈا کرنا۔

مسلم معاشرے کی بہبود کے لیے ان کی تمام معاملات میں رہنمائی کرنا اور انھیں مشورہ دینا ،جن کا ان سے بخوبی تعلق ہو۔

مندرجہ ذیل فہرست ان خواتین ممبران کی ہے، جنھیں مسلم لیگ کی پہلی سب کمیٹی میں شامل ہونے کی عظیم سعادت نصیب ہوئی

پنجاب:۱۔ بیگم شاہنواز ، ۲۔ مسز رشیدہ لطیف،۳۔لیڈی جمال خان، ۴۔لیڈی عبدالقادر

بمبئی: مس فاطمہ جناح، مسز فیض طیب جی، بیگم حفیظ الدین

بنگال: بیگم شہاب الدین،مسز ایم۔ ایم۔ اصفہانی

یو۔ پی: بیگم حبیب اللہ،بیگم اعزاز رسول،بیگم وسیم،بیگم محمد علی،بیگم نواب اسماعیل خان، مس راحیلہ خاتون

سی۔پی مس نادر جہاں آف سیونی،بیگم نواب صدیق علی خان

بہار: لیڈی امام،بیگم اختر

آسام:مسز عطا الرحمان،مسز جے۔خان

سندھ:مسز طیب جی،لیڈی ہدایت اللہ ،بیگم شعبان،لیڈی ہارون

سرحدبیگم حاجی سعد اللہ خان،،مسز خواجہ اللہ بخش

دہلی: مسز حسین ملک،سز نجم الحسن،بیگم رحمان

مدراس: مسز عائشہ کلہا موروحاجی،مسز قریشی

مسلم لیگ ورکنگ سب کمیٹی کی ان رہنما اراکین نے خواتین میں سیاسی شعور بیدار کرنے کے سلسلے میں قابل قدر کام سر انجام دیا۔ انھوں نے گھر گھر مسلم لیگ کا پیغام پہنچایا اور ان خواتین کو بھی مسلم لیگ کے پیغام سے روشناس کرایا جو سیاست سے اب تک مکمل طو رپر لاتعلق تھیں۔

اپریل ۱۹۴۳ء میں آل انڈیامسلم لیگ کا اجلاس دہلی میں منعقد ہوا۔ یہ اجلاس بہت اہم تھا، کیونکہ قائداعظم کی زیر صدارت مسلم لیگ کی تنظیم ہو چکی تھی اور گزشتہ چھ سال میں بہت زور پکڑ چکی تھی۔ مخالفتوں اور آزمائشوں کے طوفانوں سے ہمیشہ پہلے سے زیادہ طاقتور بن کر نکلتی تھی۔ اجلاس کی اہمیت یوں بھی زیادہ تھی کہ یہ شاہی دارالحکومت میں منعقد کیا جا رہا تھا اور یہ ضروری تھا کہ یہ اجلاس کامیابی سے ہمکنار ہو اور ایسا ہی ہوا۔

مسلم لیگ کا اجلاس

مسلم لیگ کایہ ر قابل دید اجلاس تھا ، اسے کامیاب بنانے کے لیے لیگ کی دہلی شاخ کی چند اہم خواتین اراکین نے بڑی جانفشانی سے کام کیا۔ متوقع طو رپر آنے والی مندوب خواتین کی رہائش کے انتظامات کے لیے ایک استقبالیہ کمیٹی قائم کی گئی اور لیگ کے لیے فنڈ جمع کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔

خواتین کا اجلاس تیسرے دن سہ پہر لیڈی ہارون کی صدارت میں ہوا۔ ہم نے لیگ کے مقاصد کو ایک بار پھر دہراتے ہوئے ویسی ہی بہت سی قرار دادیں منظور کیں۔ اب تک زیادہ زور خواتین کی اصلاح اور تعلیم پر دیا جا رہا تھا۔ ہمارے لیے یہ بہت فخر کی بات تھی کہ ہم خواتین خود اپنا اجلاس منعقد کر رہی تھیں۔ اس سے پہلے ہم مسلم لیگ کے تمام مردانہ جلسوں میں شرکت کرتےتھے، جس میں پردہ نشین خواتین کے لیے الگ جگہ مخصوص کی جاتی تھی، لیکن ہم میں سے چندخواتین پردے سے باہر ڈائس پر بیٹھتی تھیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ،خواتین مردوں کے بالکل سامنے بیٹھتی تھیں، لیکن ہم نے حاضرین میں سے کسی کے منہ سے کوئی شکایتی جملہ نہیں سنا، نہ ہمارے اس رویے پر کوئی سرگوشی ہوتی تھی، حالانکہ ان حاضرین میں اکثریت قدامت پسند حضرات کی ہوتی تھی۔ یہ بہت بڑی کامیابی تھی اور یہ اس وجہ سے ممکن ہوئی کہ قائداعظم، محتر مہ فاطمہ جناح کو اجلاس میں شرکت کے لیے اپنے ساتھ لاتے تھے۔ قائداعظم پہلے ہی اس مقام تک پہنچ چکے تھے کہ وہ جو کچھ چاہتے ، کرسکتے تھے اور عوام بھی اسے تسلیم کر لیتے تھے، چنانچہ محترمہ فاطمہ جناح کامسلم لیگ کے عام اجلاس میں شرکت کرنا بالکل ٹھیک تھا اور ہم مردانہ اجلاسوں میں شرکت کر سکتےتھے۔ بیگم اعزاز رسول نے اجلاس میں تقریر کی۔ بیگم بشیر احمد نے بڑی فراخدلی سے لیگ کے لیے عطیہ دیا۔ قوم کی تعمیر میں خواتین کا زمانہ شروع ہو چکا تھا۔

فروری ۱۹۴۲ء میں ہم نے دہلی کے اینگلو عربک کالج میں ایک کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا، اگرچہ یہ ایک چھوٹی سی تقریب تھی لیکن اس کی اہمیت بہت زیادہ تھی کیونکہ اس کانفرنس میں دوسرے شہروں کی مختلف خیالات رکھنے والی غیر شادی شدہ لڑکیاں بغیر کسی نگرانی کے شرکت کے لیے آ رہی تھیں۔ ان سب کو ان لوگوں کے یہاں قیام کرنا تھا جو ان کے خاندان کے لیے اجنبی تھے۔ ان دنوں یہ بات ایک زبردست انقلاب سمجھی گئی۔

پاکستان کا مطالبہ

مسلم ویمن سب کمیٹی کی طرح ہندوستان کے دوسرے حصوں میں فیڈریشن کی شاخیں قائم کرنے کی بھی کوششیں کی گئیں، چنانچہ سی۔ پی اور بنگال میںاس کی شاخیں قائم کر دی گئیں۔ قائداعظم مسلمانان ہند کو منظم اور ان کے لیے پاکستان کے قیام کے مطالبے کو تسلیم کرانے کے لیے کٹھن اور صبر آزما کام کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری کوششوں میں رہنمائی اور ہمت افزائی کے لیے بھی وقت نکال لیتے۔ جب کبھی اور جہاں کہیں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ہوتا، اس کے ساتھ ساتھ مسلم ویمن سب کمیٹی کااجلاس بھی ہوتا اور قائداعظم شرکت کرتے اور وومن نیشنل گارڈ کے معائنے کے لیے وقت بھی دیتے تھے۔ انھوں نے مارچ ۱۹۴۶ء میں دہلی میں مسلم وومن اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس میں شرکت کر کے اس کی عزت افزائی کی۔ یہ جلسہ اینگلو عربک کالج کے وسیع ہال میں ہوا لیکن اس بار نہ صرف ہال حاضرین سے بھر گیا تھا بلکہ بہت سے حاضرین برآمدوں اور کالج کے باغ میں کھڑے تھے۔ لوگوں کایہ ہجوم کام کی اس رفتار کی طرف اشارہ کر رہا تھا جس کی بدولت خواتین میں سیاسی شعور بیدار ہوا تھا۔

قائداعظم نے مساوی طو رپر سیاست میں خواتین کی شرکت کو تسلیم کیا۔ عورتوں کو بھی اس نظم و ضبط اور تادیبی کارروائیوں کا پابند ٹھہرایا گیا جو مرد ممبران کے لیے ضروری تھیں اور جب قائداعظم نے مردوں کو برطانوی حکومت کی جنگ کی کوششوں میں ان کے ساتھ تعاون نہ کرنے کاحکم دیا توساتھ ہی عورتوں کو بھی ایسا کرنے کا حکم دیا۔ قائداعظم کو یہ توقع تھی کہ مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرنے والے لوگ کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

قائداعظم محض جذباتیت اور جوش کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے تھے بلکہ لوگوں کو حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرنے کی تعلیم دیتے تھے۔ میں نے انھیں مسلم لیگ فنڈ میں دیے ہوئے زیورات خواتین کو یہ کہہ کر واپس کرتے ہوئے دیکھاکہ ایساکرنے سے پہلے اپنے شوہروں کی رائے معلوم کر لو، کیونکہ وہ ٹھوس اور عملی کام کو سراہا کرتے تھے۔

ایک بار ایسا ہوا کہ ایک ڈنر پارٹی میں کسی نے قائد کی ذات پر رکیک حملہ کیا۔ میں غصے میں آپے سے باہر ہو گئی۔ ایک تماشا بن گیا۔ بعد میں میں نے اس افسوسناک واقعے کا قائداعظم سے ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ معمولی بات تھی۔ تمہیں اس قدر غصہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میں نے اس کا ذکر قائداعظم سے اس لیے کیا تھا کہ ان کی ذات پر غرور و تکبر کا الزام لگایا گیا تھا، لیکن ذاتی غرور میں مبتلا کوئی شخص ایسے الزام کو معمولی بات نہیں کہا کرتا۔وہ نہ تو غیر اہم گفتگو کرتے تھے اور نہ انھوں نے کسی کو اپنے رویے سے رجھانے کی کوشش کی۔

قائداعظم مدبرانہ بصیرت کے مالک تھے۔ ایک ایسے انسان تھے جو اپنے عقائد کے مطابق کام کرتا ہے۔ چند سالوں بعد جب ، وہ نئی منظم شدہ مسلم لیگ کے صدر منتخب ہو گئے، انھوں نے بلاتاخیر ایک قرار داد پیش کی جس کی بدولت مسلم لیگ وومن سب کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا، انھوں نے مسلم ویمن اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے قیام کا بھی حکم دیا اور جونہی پہلی قانون ساز اسمبلی کے لیے بہتر(۷۲) ممبران منتخب کیے گئے، انھوں نے دو نشستیں خواتین کے لیے بھی مقرر کر دیں۔ پنجاب سے بیگم جہاں آراء ، شاہ نواز اور میں، جب کہ مشرقی پاکستان سے دو خواتین منتخب کی گئیں۔ چند ہفتوں ہی میں قیام پاکستان کے بعد جب اقوام متحدہ میں پہلا نمائندہ وفد روانہ ہوا تو اس میں ایک خاتون مندوب بیگم تصدق حسین کو بھی شامل کیا گیا۔ اس اقدام نے ایک مثال قائم کر دی۔ بعد میں بھی اقوام متحدہ میں وفد بھیجتے وقت ایک خاتون نمائندے کو بھی شامل کیا جانے لگا۔

قیام پاکستان کے پہلے چند ماہ میں قائم ہونے والی ہر تنظیم مثلاً آل پاکستان ریڈ کراس سوسائٹی، اینٹی۔ٹی۔بی ایسوسی ایشن اور پاکستان میں اقوام متحدہ کے بچوں کی فلاح و بہبود کے ادارے UNICEFکی شاخ کی انتظامیہ یا مجلس منتظمہ کے ممبران میں خواتین کو بھی شامل کیا گیا۔ اس بات نے خواتین کے اس مقصد کی طرف راہنمائی کی، جس کے لیے انھوں نے کوشش کی تھی۔ یہ قائداعظم کی حوصلہ افزائی ہی کانتیجہ ہے جس کی بدولت خواتین پہلے جدوجہد آزادی میں حصہ لینے کے قابل ہو سکیں اور پھر قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آباد کاری کے عظیم مسئلے اسمیت دیگر مسائل کو حل کرنے کی کوششیں کیں اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنی شرکت جاری رکھی۔

بیگم لیاقت علی خاں کی فعال قیادت میں آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن نے ایسے کارنامے انجام دیئے ، جنھیں دنیا بھر میں سراہا گیا۔قوم کی تاریخ میں ایک بار ہی ایسا انسان جنم لیتا ہے جو اس کی تقدیر بدل دیتا ہے اور قائداعظم ایسے ہی انسان تھے، جنھوں نے ہمارے سفینے کو ساحل تک لگا دیا، لیکن تقدیر نے زیادہ دیر تک اس کی قیادت کی مہلت نہ دی، مگر جن بنیادوں پر انھوں نے اسے قائم کیا تھا، وہ بہت مضبوط ہیں اور بہت سے طوفانوں کامقابلہ کر سکتی ہیں۔ ہم نے ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی ہے اور اس منزل کی طرف چل رہے ہیں جس کی نشاندہی قائداعظم نے کی تھی۔