عرصہ دراز کے بعد وفاق اور صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک ہی جماعت کی حکومتیں قائم

August 09, 2018

سلطان صدیقی، پشاور

ملک میں گیارہویں عام انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے‘روایات کے مطابق ہارنے والوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات اورتحفظات کے باوجود حکومت سازی کیلئے صلاح مشورے اور جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے‘ کون ہارا ‘کون جیتا ‘ کہاں کس پارٹی کے امیدوار نے کس جماعت کے امیدوار کو شکست دو چار کیا‘ یہ باتیں اپنی جگہ مگر اس تمام تر انتخابی دوڑ دھوپ اور عمل کا سب سے خوش آئندہ پہلو اہالیان خیبرپختونخوا کیلئے یہ ہے کہ بہت عرصہ کے بعد پہلی بار مرکز یعنی وفاق اور صوبے میں ایک ہی جماعت کی حکومتیں بننے جا رہی ہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے عوام کیلئے یہ بات بھی خوشی اور مسرت سے کم نہیں کہ خیبرپختونخوا اور وفاق کی بڑی اکائی صوبہ پنجاب میں بھی ایک ہی جماعت کی حکومت بننے جا رہی ہے جس کا لامحالہ فائدہ چھوٹے صوبوں باالخصوص خیبرپختونخوا کو ہی ملے گا کہ ماضی میں مختلف بلکہ باہم مخالف جماعتوں کی وفاق اور صوبے میں حکومتیں ہونے کے باعث صوبہ خیبرپختونخوا کو اپنے حقوق کے حصول اور محصولات کے حصول میں مشکلات کا سامنا رہتا تھا‘ ساتھ ہی وفاق کے تحت صوبے میں پی ایس ڈی پی کے منصوبوں پر عملدرآمد محض دکھاوے کی حد تک رہتا تھا اور اکثر اوقات صوبہ خیبرپختونخوا میں پی ایس ڈی پی کے منصوبوں کیلئے مختص کئے جانیوالے فنڈز ’’ ری اپروپریشن ‘‘ میںدوسرے صوبوں بالخصوص پنجاب میں جاری منصوبوں کو منتقل ہو جاتے‘ اسی طرح این ایف سی ایوارڈ ‘ قومی اقتصادی کونسل میں صوبے کی بات اس طرح سننے کو کوئی تیار نہ ہوتا جس طرح ہونا چاہیے تھا ‘ بجلی کے خالص منافع کے بقایاجات اور سالانہ حصہ میں اے جی این قاضی فارمولے کے مطابق سالانہ اضافہ‘ گیس رائلٹی‘ قومی بینکوں کی جانب سے صوبے میں سرمایہ کاری‘ صنعتوں کے فروغ ‘ صوبے میں پیدا ہونیوالی قدرتی گیس سے صوبے کی انڈسٹری کیلئے نئے صنعتی کنکشنوں پر پابندی اور بہت سے دیگر ایشوز کے حوالے سے صوبہ ہمیشہ بحران کا شکار رہتا اور اس کی پسماندگی دور ہونے کی بجائے مزید بڑھتی رہتی‘ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں اگر 2018ء کے انتخابات سے قبل انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو ہر بار صوبے کے عوام نے مختلف سیاسی جماعتوں کو مینڈیٹ سے نوازا اور کسی بھی ایک سیاسی جماعت کو مسلسل دو بار انتخابات میں بھاری مینڈیٹ نہیں ملا‘ یوں یہ بھی ملکی تاریخ کا ایک نیا باب ہے کہ عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف کو صوبے کے عوام نے پانچ سالہ دور اقتدار کی تکمیل پر آئندہ پانچ سال کیلئے پھر اپنے اعتماد سے نوازا اور وہ بجا طور پر توقع کر رہے ہیں کہ اب کی بار جبکہ وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہوگی تو نہ صرف یہ کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار کے اقدام پر دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند منڈا ڈیم کی تعمیر سمیت صوبے میں 30ہزار میگاواٹ سے زیادہ کی گنجائش کے پن بجلی کے منصوبوں کی بھی منصوبہ بندی کی جائیگی اور صوبے کے پن بجلی منصوبوں سے پیدا ہونے والی بجلی نیشنل گرڈ کو دینے میں رکاوٹیں نہیں ڈالی جائیں گی ‘ ساتھ ہی صوبے کو اس کی ضروریات کے مطابق اگر نہ بھی ہو تو کم ازکم اپنے حصے کے مطابق بجلی کی ترسیل جاری رہے گی اور لوڈ مینجمنٹ کا اختیار صوبے کو دیا جائیگا یا صوبے کی مشاورت کو اہمیت دی جائیگی‘ اسی طرح بجلی کے خالص منافع کی صوبے کو ادائیگی میں اے جی این قاضی فارمولے پر عملدرآمد کیا جائیگا‘ عام انتخابات سے قبل فاٹا کے علاقوں کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا ہے‘ سات قبائلی ایجنسیوں کو اضلاع کا درجہ دیا گیا ہے اور ایف آرز کے چھ علاقوں کو متعلقہ اضلاع کا حصہ بنایا گیا ہے‘ ان قبائلی اضلاع کو متعلقہ ڈویژن کا حصہ بنایا گیا ہے مگر صرف اتنا کرنے سے ان علاقوں کی پسماندگی دور نہیں ہو گی نہ ہی ان علاقوں میں ترقی آسکے گی ‘ اس کیلئے 10سالہ خصوصی ترقیاتی پیکج پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد سے ہی ان علاقوں کو قومی ترقی کے دھارے میں لایا جا سکتا ہے یقیناً وفاق اور صوبے میں ایک جماعت کی حکومتیں آنے سے اس عمل کو بھی تقویت ملے گی اور یہ عمل بہ احسن و خوبی آگے بڑھے گا ‘ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ صوبہ پنجاب کئی دھائیوں سے صوبہ خیبر پختونخوا کے حصے کا پانی استعمال کرتا رہا ہے مگر صوبے کو اس کے بدلے کسی قسم کی ادائیگی کیلئے تیار نہیں جبکہ کئی بار جب صوبے میں گندم کا بحران آیا ہے تو پنجاب کی جانب سے یہاں کی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنے کی غرض سے گندم کی ترسیل پر پابندی عائد کی گئی ہےا ور صوبے سے متصل اضلاع میں دفعہ 144کے تحت خیبرپختونخوا کو گندم اور آٹا کی ترسیل روک دی گئی اب جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ایک ہی جماعت کی حکومتیں ہونگی تو یہ بھی توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ نہ صرف یہ کہ اس قسم کی صورتحال نہیں بنے گی بلکہ صوبوں کی جانب سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور بہتر شراکت کار کا عمل دیکھنے کو ملے گا یہ بھی توقع کی جا رہی ہے کہ وفاق کی جانب سے صوبہ خیبرپختونخوا میں پن بجلی کے منصوبوں میں شراکت و سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ معدنی وسائل کے فروغ اور سیاحت کی ترقی سمیت یہاں کی صنعتوں اور دیگر بہت سے شعبوں کو سی پیک منصوبے سے مربوط کرنے کیلئے بھی اقدامات اٹھائے جائینگے‘ وفاق اور صوبے میں ایک ہی جماعت کی حکومت ہونے کے ساتھ ساتھ صوبے کی تاریخ میں پہلی بار وزیراعلیٰ اور گورنر ایک ہی جماعت سے ہونگے اور صوبے میں ماضی میں گورنروں اور وزراء اعلیٰ کے مابین جو تنائو کی فضا رہی ہے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی کوششیں کی گئی ہیں اس بار صوبہ خیبرپختونخوا اس سے بھی بچا رہے گا اورصوبے کے آئینی سربراہ گورنر اور انتظامی سربراہ وزیر اعلیٰ ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہوئے صوبے کے بہتر مفاد میں کام کرینگے یوں صوبہ ترقی کی جانب گامزن رہے گا ۔