ذہنی و منشیات کی علاج گاہیں

August 12, 2018

(گزشتہ سے پیوستہ)

گزشتہ کالم میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے لاہور مینٹل اسپتال کو اپ گریڈ کرنے کے حوالے سے قائم کمیٹی کے ممبران اور کمیٹی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سعد بشیر ملک سے بڑی طویل میٹنگ کی۔ جس میں پورے ملک میں قائم ذہنی و منشیات کی علاج گاہوں کو اپ گریڈ کرنے کے بارے میں بات چیت ہوئی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی یہ دلی خواہش ہے کہ پاکستان میں قائم تمام سرکاری ذہنی و نفسیاتی اور منشیات علاج گاہوں کے حالات کو بہتر کیا جائے۔ ان کے نزدیک ان علاج گاہوں کے حالات کافی ناگفتہ ہیں اور وہاں پر داخل مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اس حوالے سے وہ ایک بہت بڑا قومی سطح پر سیمینار بھی منعقد کرنا چاہتے ہیں؟


سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے منشیات کے علاج و بحالی کے غیر قانونی مراکز کے خلاف جاری کارروائی میں اب تک سینکڑوں افراد ان جیل نما نام نہاد ذہنی ونفسیاتی و منشیات کی علاج گاہوں سے رہا کرا چکے ہیں۔ دلچسپ اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ ان ذہنی و نفسیاتی اورخصوصاً منشیات علاج گاہوں کو چلانے والے خود ڈاکٹر نہیں بلکہ بعض مشکوک قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ لاہور کے ایک انتہائی گنجان آباد علاقے شادباغ میں ایک ذہنی و نفسیاتی و منشیات کی غیر قانونی علاج گاہ کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے تین سو کے قریب محبوس افراد کو رہا کرایا گیا تھا۔ جس کے بارے میں جیو پر بھی خبر چلی تھی۔ اس سے قبل وزیر آباد میں بھی تین نام نہاد اور غیر قانونی علاج گاہوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کو سیل کردیا تھا اور بے شمار افرادکو رہائی دلائی گئی تھی۔ یہاں پر یہ ایک افسوس ناک حقیقت بھی سامنے آئی تھی۔ ان ذہنی اور منشیات کی علاج گاہوں میں وہاں کے کرتا دھرتا جائیداد اور پیسوں کی خاطر رشتہ داروں کے کہنے پر یا پھر خود سے بھی لوگوں کو اغوا کر کے لائے تھے اور ان سے خالی کاغذوں پر دستخط کرا کے جائیداد ہتھیا لیتے تھے۔


کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی و میو اسپتال کے شعبہ نفسیات، ذہنی و منشیات علاج گاہ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر آصف اور ڈاکٹر نبیل عباد کے بقول پاکستان کے ہر گھر میں کوئی نہ کوئی فرد کسی نہ کسی ذہنی مرض میں مبتلا ضرور ہے اور آج ہر دوسرے فرد کو کونسلنگ کی ضرورت ہے۔


ہمارے ملک میں ذہنی صحت کو کبھی بھی اہمیت نہیں دی گئی حالانکہ ذہنی صحت ہی سب کچھ ہے۔ اگر انسان ذہنی طور پر بیمار ہے تو اس کی جسمانی صحت اور زندگی کے تمام معمولات تک بگڑ جاتے ہیں۔ دوسری تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کسی بھی ذہنی مریض کو صرف پاگل ہی سمجھا جاتا ہے اور لوگ بعض دفعہ اپنے پیاروں کو معمولی ذہنی و نفسیاتی بیماری پر مینٹل اسپتال عرف عام میں پاگل خانے چھوڑ آتے ہیں۔ دوسرے ہمارے ہاں عادتاً بھی لوگ ایک دوسرے کواوئے پاگل کیا کررہے ہو کہہ دیتے ہیں۔ 70برس تک پورے پنجاب بلکہ کبھی پاکستان کی واحد ذہنی امراض کی علاج گاہ مینٹل اسپتال کا کسی اہم شخصیت نے دورہ نہیں کیا تھا۔ یہ تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا بھلا ہو جنہوں نے نہ صرف وہاں کا دورہ کیا بلکہ مینٹل اسپتال کے حالات کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات اور ہدایات بھی جاری کیں۔


عزیز قارئین! اس وقت پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں 1400ذہنی و نفسیاتی مریض ہیں جن میں ایک ہزار مرد اور چار سو خواتین ہیں جن میں سے بعض ذہنی مریض انتہائی خطرناک ہیں۔ جو ذہنی و نفسیاتی مریض ایمرجنسی میں لائے جاتے ہیں ان کو ایمرجنسی میں ان کمروں میں بند کردیا جاتا ہے جن پر سلاخیں لگی ہوئی ہیں۔ 1400مریضوں کے لئے رات کو صرف ایک ڈاکٹر، ایک وارڈ اٹینڈنٹ، صرف 4سوشل ورکر۔ ہر روز ایمرجنسی میں 700کے قریب ذہنی مریض آتے ہیں جن کو صرف آٹھ ڈاکٹرز چیک کرتے ہیں۔ ذرا دیر کو سوچیں کہ ہر ڈاکٹر تقریباً اسی سے سو کے درمیان روزانہ مریضوں کو دیکھتا ہے۔ کیا وہ اپنے پروفیشن کے ساتھ انصاف کر پاتا ہے؟ کیا وہ مریضوں کی مکمل طور پر ہسٹری لے پاتا ہوگا؟ کیا وہ مریضوں کی کونسلنگ کر پاتا ہوگا؟ یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ ذہنی مریضوں کو عام مریضوں کے مقابلے میں زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ عام لوگ تو سر، پیٹ درد، شوگر، بلڈپریشر وغیرہ کی تکلیف بتا کر دوائی لے کر چلے جاتے ہیں جبکہ ذہنی مریضوں کو ادویات کے ساتھ ساتھ کونسلنگ کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ مینٹل اسپتال میں لوگ اپنے پیاروں کو چھوڑ کربھاگ جاتے ہیں اور دوبارہ ان کی خبر تک نہیں لیتے۔ معاشرتی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ لوگ اپنے رشتہ داروں کو چھوڑنے آتے ہیں تو اپنے اصل شناختی کارڈ بھی وہیں چھوڑ جاتے ہیں۔ اس وقت بے شمار اصل شناختی کارڈ اسپتال کی انتظامیہ کے پاس پڑے ہیں۔ ان ذہنی مریضوں کو چھوڑتے وقت ان کے رشتے دار اور دوست اپنے گھروں کے غلط پتے لکھوا دیتے ہیں۔ ہم نے کچھ مریضوں سے جب بات کی تو پتہ چلا کہ برس ہا برس سے ان کے رشتے دار ان کو ملنے نہیں آئے۔ سوچیں 1948ء سے ایک مریض عبدالشکور یہاں داخل ہے اور کوئی اس کو ملنے نہیں آیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے لاہور مینٹل اسپتال کے معاملات میں دلچسپی لے کر بہت بڑی خدمت کی ہے۔ دکھ، افسوس اور شرم کی بات یہ ہے کہ اس وقت تمام سیاست دان خصوصاً مولانا فضل الرحمان جس طرح کے بیانات دے رہے ہیں وہ افسوس ناک ہیں۔ آج تک کسی سیاسی جماعت کے لیڈر نے ان ذہنی مریضوں کے بارے میں کبھی سوچا ہے! کبھی یہاں آئے ہیں؟ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جانوروں تک کے ماہرین نفسیات ہوتے ہیں یہاں تو انسانوں کے لئے نہیں ملتے۔


یوم جشن آزادی آج سے دو دن بعد ہے اور اس جشن کو منانے کے لئے لوگ سڑکوں اور بازاروں میں خصوصاً نوجوان ہلا گلا کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ ون ویلنگ کرتے ہیں اپنی جان بھی گنواتے ہیں۔ کیا کبھی سوچا ہے کہ یہ آزادی کس طرح حاصل کی گئی ہے؟ لاکھوں لوگ قتل ہوئے، 80,000عورتوں کی عصمت دری کی گئی، 70برس میں تباہی کے دہانے پر آگیا۔ کرپشن گردن تک آچکی ہے۔ اخلاقی اقدار تباہ و برباد ہو چکی ہیں۔ آج کی نسل کو یہی نہیں پتا کہ پاکستان کیوں حاصل کیا گیا تھا۔ سکھوں نے جو قتل عام کیا وہ تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے اور بھارت آج بھی پاکستان کو نیست و نابود کرنے کے لئے منصوبے بناتا رہتا ہے اور ہم جشن آزادی مناتے وقت یہ تمام باتیں بھول جاتے ہیں۔ کیا کبھی ہم نے آج کی نسل کو بتایا کہ کروڑوں لوگوں نے ہجرت کیسے کی؟ کس تکلیف اور مشکل سے لوگ پاکستان پہنچے۔ کس طرح سکھ بلوائیوں نے مسلمانوں پر حملے کئے اوران کی عزت تار تار کی۔ کیا جشن آزادی اس طرح منانا چاہئے۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو بتانا چاہئے کہ یہ ملک کیوں حاصل کیا گیا تھا، اس کے کیا مقاصد تھے اور اس آزادی کی کتنی بھاری قیمت دینی پڑی۔ تعلیمی اداروں میں صرف پرچم کشائی کرنے سے اور چند تقاریر کرنے سے منزل نہیں ملا کرتی۔ آنے والے چند برس پاکستان کے لئے بہت کٹھن اور تکلیف دہ ہیں۔