میرا دل میری جان،جمہوری پاکستان

August 14, 2018

قابل فخر اور قابل تحسین ہے میری عظیم قوم جو آج 71ویں یوم آزادی کی خوشیاں اس عزم سے منارہی ہے کہ وطن عزیز کی عزت اورحفاظت کے لئے اپناتن من دھن تک قربان کر دے گی۔ یہی وہ عظیم قوم ہے جس نے ہر قسم کے حالات کا خندہ پیشانی اور بہادری سے سامنا اور مقابلہ کیا ہے۔ آج کا دن پاکستان کی تاریخ کا ایک بڑا دن اس لئے بھی ہے کہ یہاں پہلی مرتبہ مسلسل تیسرے جمہوری دور کا آغاز ہوگیا ہے، گزشتہ روز15 ویں منتخب قومی اسمبلی نے حلف اٹھا لیا ہے۔ 1999میں منتخب جمہوری حکومت پر شب خون مارنے والے آمر کے10 سالہ دور عنانیت کے خاتمے کے بعد 2008 میں عام انتخابات ہوئے، کنگزپارٹی کا صفایا ہوگیا اور پیپلزپارٹی نے دو وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف کے ساتھ اپنا پانچ سالہ اقتدار مکمل کیا،2013کے عام انتخابات ہوئے تو عوام نے پیپلز پارٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مینڈیٹ ن لیگ کی جھولی میں ڈال دیا۔25 جولائی 2018 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ تبدیلی کے نام پر پچھاڑ دی گئیں، نتیجتاً مینڈیٹ منقسم اور ہنگ پارلیمنٹ وجود میں آگئی۔ پاکستان میں رائج دو جماعتی اقتدار کا خاتمہ اور پہلی بار ایک تیسری جماعت تحریک انصاف وفاق سمیت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اکثریتی جماعت کے طور پر ابھری۔ حیران کن پہلو یہ ہے کہ جمہوری قوتوں نے تینوں انتخابات میں بھرپور حصہ لیا لیکن نتائج کو کبھی تسلیم نہ کیا لیکن جمہوری نظام کو پٹری سے بھی نہیں اترنے دیا کیونکہ دل ہےجمہوری پاکستانی۔20 کروڑ پاکستانیوں نے بھی ووٹ کے ذریعے فیصلوں کی ٹھان کر جمہوریت کو اپنے سینے سے لگایا ہے اور اس کو جند جان بنالیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں مسلسل خطرات میں گھری پارلیمنٹ کو طاقت کے باوجود شکست نہ دی جاسکی۔ بس یہی عوام کی کامیابی اور یہی پراسس ان کے مسائل کا حقیقی حل ثابت بھی ہوگا۔


حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز کی 71ویں سالگرہ کے موقع پر پاکستان میں نئی تاریخ رقم ہورہی ہے، نئے بیانئے کا آغاز ہورہا ہے، نئی سوچ پروان چڑھ رہی ہے، نئی امنگیں تعبیر مانگ رہی ہیں۔ جذبے روشن اور عزم بلند ہورہے ہیں۔ امید نو سے خوشگوار زندگی کے آغاز کی امید پیدا ہورہی ہے۔ 65 سالہ عمران خان سیاسی جدوجہد کے دوران پارلیمنٹ کے حوالے سے جو بھی کہتے رہے وہ ماضی کا حصہ ضرور ہے لیکن اب وہ جمہور کے ترجمان معزز ایوان کے بھی قائد بننے جارہے ہیں۔ عوام کا مینڈیٹ پانے کے بعد انہیں تاریخ وہ مقام بخشنے جارہی ہے کہ وہ ٹھیک 30سال بعد17اگست کو اسی دن وزیراعظم منتخب ہونے جارہے ہیں کہ جس دن وطن عزیز نے ایک حادثے کے نتیجے میں 11سالہ بدترین آمریت سے نجات پائی تھی۔ تاہم ایک بات ہمیشہ سوالیہ نشان رہی ہے کہ 1988ء کے بعد عوام کے ووٹوں سےبحال ہونے والی جمہوریت کا مقصد محض اقتدار کا حصول تھا یاعوام کی بھلائی؟ بظاہر سیاستدانوں کی جانب سے معذوری کے ساتھ وضاحت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے دور اقتدار میں بے اختیار اور بے دست وپا تھے اگر ایسا ہی تھا تو اقتدار چھوڑ کیوں نہیں دیا؟ اس کا جواب دیا جاتا ہے کہ مقصد سیاسی نظام کا تسلسل اور آمریت کے راستے کو روکنا ہے، اس دلیل کو معقول سمجھ بھی لیا جائے تو زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ اپنی امارت یا بے روزگاری یا غربت سے اقتدار تک کے سفر میں جس رفتار سے ہوشربا ذاتی ترقی کی، عوام بے چارے اسکا عشر عشیر بھی نہیں پاسکے۔ حد تو یہ ہے کہ سیاسی میدان میں کئی نامی گرامی نام ایسے بھی ہیں جو بیک وقت ڈکٹیٹر کی چھتری میں پھلے پھولے اور پھر جمہوری دور میں مقتدر جماعتوں کا فخریہ طور پر حصہ بھی رہے اور اب بھی ہیں کیونکہ عوام کےاعتماد کی آس ابھی نہیں ٹوٹی، کیونکہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ لولی لنگڑی جمہوریت ڈکٹیٹر شپ سے لاکھ درجے بہتر ہے۔ اب کی بار فرق یہ ہے کہ الیکٹبلز کے ساتھ جو کچھ باشعور عوام نے کیا اب وہ اقتدار میں بیٹھنے والوں کے ساتھ بھی کرسکتے ہیں؟ خان صاحب نے ہزاروں وعدوں سے عوام کو جو آس دلائی ہے جس میں کرپشن فری شفاف طرز حکومت سب سے بڑا وعدہ ہے۔ اب جب وہ 18اگست کو ملک کے نئے وزیراعظم کی حیثیت سے باگ ڈور سنبھالیں گے تو اپنے جیسے صاف کردار کے حامل افراد پر مشتمل وفاقی کابینہ کی تشکیل ایک بڑا چیلنج بنے گا کیونکہ خیبرپختونخوا میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے باوجود وہ اپنی مرضی کا وزیراعلیٰ تک لگانے میں ناکام رہے ہیں اور ایک ایسے شخص کے ہاتھوں بلیک میل ہوئے جو اپنے دور حکومت میں اتنا مستعد تھا کہ آدھا دن گزرنے کے بعد بستر سے اٹھتا تھا۔ پھر اس کا کمال یہ بھی ہے کہ اپنے اقتدار کی غلطیوں میں آپ کو حصہ دار بناکر پھنسوا بھی دیا۔ یہی نہیں اب بھی پارٹی کے اندر موجود کئی طاقتور لابیز اور ان کے اپنے قریبی ساتھی خود احتسابی، میرٹ کے نفاذ، شفاف اور بےلاگ حکومتی نظم و نسق میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوسکتے ہیں۔ لیکن خان صاحب مضبوط قوت ارادی سے سب کو راہ راست پر لانے کو اولین ترجیح بنا کر روایتی سیاسی و جمہوری انداز حکومت کو بدل سکتے ہیں۔ بلاشبہ عمران خان کو بطور وزیراعظم نامزدگی پر ہم وطنوں کے علاوہ بیرون ملک سے خوب پذیرائی مل رہی ہے، عالمی رہ نما ٹیلیفون کر کے انہیں مبارکباد اور ان کے سفراء جوق در جوق خیرسگالی ملاقاتیں کررہے ہیں۔ کھیل کے میدان میں کامیاب اننگز کے بعد سب منتظر ہیں کہ اب سیاسی میدان میں بھی شاندار کامیابی حاصل کر کے خان صاحب پاکستانی قوم کو سرخرور کریں۔ خان صاحب کے لئے جیسے حکومت بنانا آسان نہیں تھا اسی طرح باقی سب کچھ بھی آسان نہیں۔ انہیں اپنی ذات نہیں ہی بلکہ اپنی کابینہ سمیت تین صوبوں میں بھی صوبائی حکومتوں کی جوابدہی کی ذمہ داری لینا ہوگی۔ ابتدا سے ہی وفاقی وصوبائی سطح پر سادگی اور قومی خزانے کے درست اور معیاری استعمال کے حوالے سے اصلاحات کرنا ہوں گی۔ اپوزیشن جماعتوں اور قومی اداروں کے ساتھ اہم قومی امور سمیت عالمی تعلقات کو مشاورت سے بہتر بنانے کی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ ریاستی اداروں کی آرا کو مقدم بناکر پارلیمنٹ کے ذریعے فیصلوں کو اپنا شعار بنانا ہوگا۔ تحفظ سمیت عوام کو ریلیف، انہیں بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور متعلقہ اداروں سے مسائل کے حل کا جامع میکانزم بنانا ہوگا۔ اپوزیشن کے احتجاجی شور میں چھوٹے بھائی اور باپ بیٹے کی غیر حاضری نے صورت حال واضح تو کر ہی دی ہے لہٰذا اس خوف بھری ’’الفت‘‘ کا مؤثر اور مثبت جواب دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت اور سینٹ میں کم تعداد کے باعث خفت کی بجائے قانون سازی کے عمل میں کامیابی حاصل کی جاسکے۔ بلاشبہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل کسی ایک کے پاس نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں بیٹھی تمام جماعتوں کے پاس ہے۔ اس ملک کا مستقبل صرف جمہوریت سے وابستہ ہے تاکہ قائداعظم کے عوامی و فلاحی ریاست کے خواب کی تکمیل ممکن ہوسکے اور آنے والے برسوں میں عوام 14اگست کے دن کو حقیقی آزادی کے دن کے طور پر بھرپور خوشیوں سے منا سکیں۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)