چالاک

November 20, 2012

پروفیسر صاحب بتا رہے تھے کہ طالب علم کا پیپر دیکھ کر میں سخت پریشانی میں مبتلا ہو چکا تھا، مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس طالب علم کے ساتھ کیا سلوک کروں میں پہلے بھی اس طرح کے قصے سن چکا تھا۔ لیکن میرے ساتھ یہ پہلا واقعہ تھا۔ طالب علم کی ہینڈرائٹنگ بھی ٹھیک تھی۔لیکن اس نے جو مضمون لکھا تھا اس نے مجھے عجیب سوچ میں ڈال دیا تھا۔ طالب علم نے پیپر میں اپنی مجبوریاں اور بے چارگی کی ایک طویل داستان بیان کرنے کے بعد لکھا تھا کہ سر جی آپ کو اللہ کا واسطہ ہے مجھے پاس کردیجئے گا آپ کو رسول کا واسطہ ہے مجھے پاس کردیجئے گا۔ اگر آپ پنجتن کے ماننے والے ہیں تو آپ کو پنجتن کا واسطہ میری درخواست رد نہ کیجئے گا۔ آپ کو خلفائے راشدین کا واسطہ ہے کہ اگر میں اس مرتبہ بھی فیل ہو گیا تو آپ کو میں بتا چکا ہوں کہ میرے ساتھ کتنا ظلم ہو جائے گا۔ میں اپنا سارا خاندانی پس منظر بیان کرچکا ہوں میرا مسئلہ صرف یہی ایک پیپر ہے اس پیپر میں نکل گیا تو پھر میرا بیڑا پار ہے۔
اگر آپ اللہ، رسول، پنجتن پاک اور خلفائے راشدین کو بھی نہیں مانتے تو میں آپ کو کربلا کے معصوم شہداء کا واسطہ دیتا ہوں جنہوں نے تپتی ریت پر اور پانی کی شدید پیاس کے ساتھ اللہ کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیاتھا۔
دیکھیں سر!مجھے معلوم ہے کہ میں ایک علم کی روشنی بکھیرنے والے استاد کو ایک ایسی درخواست کر رہا ہوں جو قانونی طور پر بالکل غلط ہے لیکن سر آپ دیکھیں نہ ہم زندگی میں قوانین کی بار بار خلاف ورزی کرتے ہیں، ہماری زندگیاں گناہوں سے بھری پڑی ہیں، ہم روزانہ کئی بار گناہ بے لذت کرتے ہیں۔ سر جی میرا خدانخواستہ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ بڑے گناہ گار شخص ہیں بلکہ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ یہ چھوٹا سا گناہ کرلیں گے تو ایک غریب کی زندگی سنور جائے گی۔
میں اس بچے کی واردات کے بارے میں سوچتا کہ کی کس طریقے سے مجھے ٹریپ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور مجھ سے ایک ایسے پیپر پر نمبر حاصل کرنے کیلئے جذباتی دباؤ ڈال رہا ہے جس میں اس نے ایک دو سوالات کئے ہیں اور ان میں بھی غیر تسلی بخش جوابات دیئے گئے ہیں۔
پھر میں سوچتا کہ بچے کا انداز تحریر تو یہ بتاتا ہے کہ یہ ایک ذہین طالب علم ہے اور واقعی یہ مختلف مسائل کی وجہ سے اس مضمون کی تیاری نہیں کرسکا۔
بیچارے نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ یتیم ہے بوڑھی ماں ہے، ان امتحانات سے اس کا سارا مستقبل جڑا ہوا ہے۔ اس کی ماں کی زندگی کا سوال ہے۔
لیکن آگے جا کر اس بچے نے پیپر میں نمبر حاصل کرنے کیلئے ایک اور واردات ڈالی تھی کہ سر زندگی میں ہر شخص کو کبھی نہ کبھی محبت ہوتی ہے مجھے یقین ہے کہ آپ بھی محبت یا عشق کے امتحان سے گزرے ہونگے، آپ کے دل میں بھی کسی کی محبت کی شمع ضرور روشن ہوئی ہو گی۔ آپ نے بھی کسی کی یاد میں اندھیری راتوں میں بستر پر ضرور کروٹیں بدلی ہونگی اور اپنی محبت کو ایک نظر دیکھنے کیلئے تڑپے ہونگے، میں آپ کو آپ کی اس پہلی محبت کا واسطہ دیتا ہوں کہ میری درخواست کو رد نہ کیجئے گا اور مجھے اتنے نمبر ضرور دے دیجیئے گا کہ میں پاس ہو جاؤں۔
پروفیسر صاحب پچھلے ایک گھنٹے سے مجھے یہ واقعہ سنا رہے تھے ہم نے کافی کے بڑے بڑے مگ بھی خالی کرلئے تھے اس سے پہلے ڈرائی فروٹ کی ٹرے بھی چٹ کرچکے تھے کہ پروفیسر صاحب کا ایک ایسے طالب علم کا واقعہ ختم نہیں ہو رہا تھا جس نے پیپر میں کچھ کئے بغیر نمبر دینے کے لئے پیپر میں ایک لمبا چوڑا مضمون لکھ دیا تھا، میں اب یہ سننے کیلئے بے چین تھا کہ پروفیسر صاحب مجھے بتائیں کہ آخر انہوں نے اس طالب علم کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ پروفیسر صاحب ان دنوں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں اور عموماً ایسے پرانے قصے سناتے رہتے ہیں اور میں جب بھی کبھی ان سے ملتا ہوں مجھے وہ اپنی پروفیسری کا کوئی نہ کوئی قصہ ضرور سناتے ہیں۔ اور پھر پوچھتے ہیں کہ تمہیں بات سمجھ آئی ہے۔ اگر میں کہوں کہ آگئی ہے تو وہ پوچھتے ہیں کیا سمجھ آئی ہے۔ اور پھر میرے بتانے پر کہتے ہیں کہ بات اس طرح نہیں ہے اور اگر میں کہتا کہ مجھے سمجھ نہیں آئی تو کہتے کہ تم نے میری بات کو سنا ہی نہیں ہے۔ پروفیسر صاحب پھر گویا ہوئے اور کہنے لگے کہ عشق اور محبت کا واسطہ دینے کے بعد اس چالاک بچے نے مجھے میرے بچوں کا واسطہ دیا اور آخر میں لکھا کہ مجھے معلوم ہے سر آپ اپنی بیوی سے بہت محبت کرتے ہونگے، میں آپ کو آپ کی زوجہ محترمہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ میری درخواست اور التجا کو ٹھکرائیے گا نہیں اور ہاں سر آپ اب بھی میری درخواست کو رد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ایک مرتبہ میری اس درخواست اور التجا کے حوالے سے اپنی اہلیہ محترمہ سے ضرور مشورہ کرلیجئے گا۔ پروفیسر صاحب نے کہاکہ یہ فقرہ پڑھتے ہی میں نے بے اختیار اپنی بیوی کو آواز دی، وہ دوڑی چلی آئی کیونکہ اس سے پہلے میں نے کبھی گھر میں اس طرح بلند آواز میں اور کرب میں اپنی بیوی کو آواز نہ دی تھی۔آپ کو بتاتا چلوں کہ پروفیسر صاحب کی اہلیہ بھی درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک تھیں۔ پروفیسر نے بتایا کہ میں نے پیپر کے حوالے سے سارا ماجرا اپنی بیگم کو سنایا اس وقت سادہ دور تھا، لوگ نرم دل تھے، میری بیوی فوراً بول اٹھی کہ ہائے بے چارے کو دے دیں نمبرز کیا ہوا اگر ہماری ایک چھوٹی سی بے اصولی سے کسی کی زندگی سنورتی ہے تو پھر اس نے مجھے اس کا طریقہ بھی بتایا کہ پیپر پر سیاہی کی دوات الٹ دیں اور نوٹ لکھ دیں کہ بچے کا پیپر چیک ہوچکا تھا اور اس نے پاسنگ مارکس حاصل کرلئے تھے لیکن سیاہی گرنے سے اس کے سوالات ضائع ہو گئے ہیں یہ کہہ کر میری بیوی واپس باورچی خانے میں چلی گئی اور میں سیاہی کی دوات الٹنے کا طریقہ سوچنے لگا اور پھر اس پر عمل بھی کر گیا لیکن ہوا یوں کہ وہ دوات کچھ اس طرح گری کہ اس نے کئی پیپر خراب کردیئے، میرے کپڑوں کا ستیاناس کردیا، ٹیبل، فرش اور قالین برباد کردیئے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس طالب علم کا پیپر اسی طرح صاف ستھرا میرا منہ چڑا رہا تھا۔بس میں نے فوراً فیصلہ کرلیا کہ میں اس کو فیل کردوں گا کبھی پاس نہیں کروں گا۔پروفیسر صاحب تھوڑی دیر خاموش ہوئے اور میں خود کو پروفیسر صاحب کے متوقع سوال کیلئے تیار کرنے لگا، لیکن میری توقع کے برخلاف خود اس واقعہ کے حوالے سے سمجھانے لگے کہ بیٹا قوم کو بتاؤ کہ الیکشن سر پر ہیں لوگوں کی منتوں اور ترلوں کی وجہ سے کسی غلط شخص کو ووٹ نہ دے دینا چاہے تمہارے خاندان کا عزیز ترین شخص بھی غلط امیدوار کوووٹ دینے کی سفارش کرے تو نہ صرف اسے رد کردینا بلکہ اسے بھی کہنا کہ ہم نے ترس یا ترلوں منتوں سے دھوکہ کھا کر کئی مرتبہ اپنے ووٹ ضائع کئے ہیں لیکن اب اپنے ووٹ سے ملک کی تقدیر بدلنی ہے اورسیاہی کی دوات گرائے بغیر کسی سیاسی جماعت یا امیدوار کے دھوکے میں آنے کی بجائے میرٹ پر اچھے لوگوں کو منتخب کرنا ہے۔