عمران کے وعدے، پاکستانیوں کی امیدیں آسمان تک پہنچ گئیں

August 20, 2018

اسلام آباد (رائٹرز) عمران خان وزیر اعظم تو بن گئے مگر انہیں عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل نے پریشانی میں مبتلا کردیا ہے ۔ ایک کروڑ نوکریوں سے لے کر پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے، کرپشن کے خاتمے اور لوگوں کو غربت سے نکالنے تک جیسے وعدے عمران خان کی پریشانی میں اضافہ کر رہے ہیں مگر انہوں نے ایک ایسی زندہ دل قوم کی حکمرانی حاصل کرلی ہے جسے ملک کے اندر اور باہر بڑھتے ہوئے مسائل کا سامنا ہے جن میں معاشی بحران اور ملک کے تاریخی حلیف امریکا سے تعلقات کی خرابی جیسے مسائل شامل ہیں جبکہ پڑوسی ممالک افغانستان اور جوہری طاقت بھارت سے بھی تعلقات کشیدہ ہیں۔ پارلیمان میں مخالفین عمران خان کے خلاف گرینڈ اتحاد بنانے کی بات کرتے ہیں اور ان پر مختلف الزامات لگاتے ہیں جنہیں عمران خان مسترد کردیتے ہیں۔ اپنی فتح کی تقریر میں عمران خان نے بھارت کو تعلقات بہتر بنانے کی پیشکش کی اور امریکا سے مشترکا مفادات کے تحت تعلقات استوار کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ بہت زیادہ توقعات نے پارلیمان میں تھوڑی سی اکثریت کیلئے چھوٹی جماعتوں اور حزب اختلاف، جو سینیٹ کو قابو کئے ہوئے تھی، پر تکیہ کرنے کیلئے زور دیا ، خان کی اتحادی حکومت بڑے سمجھوتوں کے بغیر قانون سازی کر سکے گی۔ واضح طور پر بڑھتی ہوئی عدلیہ کو بھی قابو کیا جاسکے گا۔ ملک کا رویہ بے لگام رجائیت والا ہے خاص کر عمران کے نوجوان حامیوں کے درمیان جنہیں یقین ہے کہ عمران ملک کے 208 ملین افراد کیلئے کرپشن سے آزاد اور خوش حال نیا پاکستان بنا سکتا ہے۔ اخبار ڈیلی ٹائمز کے ایڈیٹر رضا احمد رومی کا کہنا ہے کہ عمران خان کیلئے سب سے بڑا چیلنج اپنے ووٹرز اور حمایتیوں سے کئے جانے والے بلند و بانگ دعووں پر پورا اترنا ہے۔ یوم آزادی کی تقریبات کے دوران جب پاکستانی اسلام آباد میں قومی پرچم لہراتے ہوئے نکل آئے تو بہت ساری پراعتماد آوازیں سنائی دیں کہ خان اپنے وعدے پورے کرے گا اور ورلڈ کلاس اسپتال بنائے گا اور عوام کیلئے تعلیم کو بہتر بنائے گا جہاں کا شرح خواندگی 40 فیصد سے اوپر ہے۔ انتخابات کے دوران تحریک انصاف کیلئے رضاکارانہ طور پر خدمات سر انجام دینے والے 40 سالہ شیخ فرہاج کا کہنا ہے تھا انہوں نے اپنی بیٹی کو نجی اسکول سے نکال کر سرکار ی اسکول میں داخل کرادیا ہے کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان میں تبدیلی آنے والی ہے۔ دیگر افراد اس بات پر خوش نظر آئے کہ عمران نے عشروں سے قائم دو شاہی جماعتوں کے تسلط کو توڑ کر رکھ دیا ہے جن میں جیل میں قید سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون اور بھٹو خاندان کی پاکستان پیپلز پارٹی شامل ہیں۔ سڑک کنارے قومی پرچم فروخت کرنے والے 38 سالہ شاہ سلطان کا کہنا تھا کہ ہمیں عمران خان سے بہت سی توقعات ہیں، ہمارا تعلق نچلے طبقے سے ہے اور میں نے عمران خان کو اسلئے ووٹ دیا کیوں کہ سیاستدانوں نے ہمارے ملک کیلئے کچھ نہیں کیا۔ ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ معاشی بحران بڑھ رہا ہے لیکن خان کی مہم کے وعدوں کی جانچ بدتر ہوتی معاشی حالت کرے گی خاص کر ان کا فلاحی ریاست بنانے کا عزم۔ مرکزی بینک نے دسمبر سے اب تک چار مرتبہ پیسے کی قدر کم کی ہے لیکن کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کرنسی کا بحران جاری ہےجبکہ مالیاتی خسارہ 6 اعشاریہ 8 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔ معاشی نمو تقریباً 6 فیصد پر چل رہی ہے لیکن دئیے گئے ناقابل برداشت خسارے یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کی نمو مزید خرابی کی طرف جارہی ہے۔ خان کی حکومت کو فوری طور پر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ اسلام آباد کے معاشی انحصار کو اپنے پڑوسی پر بڑھاتے ہوئے چین سے مزید قرضوں کی درخواست کریں گے یا انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرضہ مانگیں گے جو 1980 سے لئے جانے والے بیل آؤٹ پیکجز میں سے پندرھواں بیل آؤٹ ہوگا۔ دونوں قرض خواہ خرچوں میں کمی کی سختی کرتے ہوئے ممکنہ طور پر مالیاتی نظم و ضبط کا مطالبہ کریں گے۔ خان کے نئے وزیر تعلیم شفقت محمود کا کہنا ہے کہ معاشی مسائل بڑا مسئلہ ہیں مگر ہماری جماعت فلاحی ریاست دینے اور شدت سے چاہے جانے والی اصلاحات کرنے کا پختہ عزم کئے ہوئے ہے۔ شفقت محمود کا مزید کہنا تھا کہ ہماری جماعت میں ہر ایک کو اس بات کا احساس ہے کہ ہمیں ان تمام بڑی توقعات پر پورا اترنے کیلئے معمول سے زائد کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خان کا سیاستدان کے طور پر کرپشن سے پاک خاکہ حکومت پر یقین کو بڑھا سکتا ہے اور ملک میں بہت سے لوگوں کو ٹیکس ادا کرنے کیلئے آمادہ کرسکتا ہے جہاں ایک فیصد سےبھی کم افراد انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ عمران خان نے اپنے سو دن کے منصوبے کی تشہیر کی مگر بہت سی اصلاحات جنہیں پی ٹی آئی تجویز کر رہی ہے جیسے کہ نقصان اٹھانے والے ریاستی اداروں کو ٹھیک کرنے سے لے کر ٹیکس جمع کرنے کے ادارے کی اصلاحات وغیرہ، کو ٹھیک کرنے میں بہت وقت لگے گا۔ حکومتی کرپشن کا مکمل خاتمہ یا چوری سے لے جائی گئی دولت کو واپس لانا بھی ممکن نہیں۔ رومی کا کہنا ہے کہ خان کے حمایتیوں کا سادہ سا خیال ہے اگر اوپر بے داغ آدمی ہو تو پوری مشینری بے داغ ہوجاتی ہے جبکہ ایسا پوری دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا۔