وزیراعظم کا قوم سے خطاب میں غیر روایتی انداز

August 21, 2018

راولپنڈی(مظہرعباس)عمران خان قوم سے خطاب نہیں کررہے تھے بلکہ لوگوں سے ایک غیرروایتی طریقے سےبات کررہےتھے۔ وہ پرسکون، پُراعتماد اور لوگوں سےجڑےنظرآئے۔ ان کالہجہ واضح اورحکومت کیلئےانکےویژن پرمحیط تھا۔ نئے وزیراعظم نےسادگی مہم کےحوالےسےچندفوری کرنےوالے اقدامات کااعلان کیا، اور کہاکہ وہ تین بیڈرومز والے گھر میں دو گا ڑ یو ں اور دونوکروں کےساتھ قیام کریں گے۔ ’اداروں‘کی تعمیر ، بلاتفریق احتساب، کرپشن کیلئے عدم برداشت، معاشی خوشحالی اور لوگوں کی امیدوں پرپورااترنےمیں کچھ مشکلات اور چیلنجز بھی آئیں گے۔ امید ہے کہ توقعات مایوسی پر ختم نہیں ہوں گی۔ انھوں نے تعلیم، صحت، سیاحت، انسانی حقوق اورسب سے بڑھ کر سیاست زدہ اور کرپٹ محکموں سول سروس، پولیس، نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آرکوٹھیک کرنےکیلئےکچھ الگ کرنےکامنصوبہ بنایاہے۔ حلف لینےکےبعداپنی پہلی تقریرکیلئے انھیں مکمل نمبر دیے جاتے ہیں۔ سادگی کےاقدامات کو لوگوں کی جانب سے ہمیشہ مثبت ردعمل ملتا ہےاور اس حوالے سے انھوں نے کافی متاثرکیاہے۔ اپوزیشن جماعتوں سمیت سب نے ہی اس کاخیرمقدم کیاہے، انھیں اب مخالف بیانیہ تلاش کرنا ہوگااور پارلیمنٹ ایک متفقہ قرارداد یا قانون سازی کے ذریعے اعلان کرسکتی ہے کہ مستقبل میں ہرصدر، وزیراعظم اور ادار و ں کے سربراہان چھوٹے گھروں میں رہیں گے اور چھوٹی کاریں استعمال کریں گے۔ اس حوالے سے اپوزیشن اپنا حصہ ڈال سکتی ہے۔ ان کاسب سے بڑا کام اداروں کی تعمیر ہوگی اور عمران خوش قسمت ہیں کہ اس وقت ’ریاست کے تمام ستون‘ ان کی حمایت میں نظرآرہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ کام کریں۔ انھوں نے چیف جسٹس سے ملاقات کا بھی ارادہ کیاہے تاکہ عدلیہ میں اہم اصلاحات لائی جائیں اور لوگوں کو جلد انصاف مل سکے۔ ’نئےپاکستان‘کےوزیراعظم نے خودکیلئےاپنے حکومتی وزراء اور گورنرزسمیت دیگرکیلئےسادگی کےاقدمات کے ساتھ اپنےویژن کااحاطہ کیا۔ وزیراعظم نےپہلےہی تین بیڈرومز والے گھرمیں رہناشروع کردیاہے، ان کے پاس دوکاریں ہیں اور دونوکر ہیں۔ وزیراعظم کی آٹھ بلٹ پروف گاڑیوں سمیت تمام دیگر سرکاری گاڑیاں نیلام کی جائیں گی۔ امید ہے کہ وہ اس میں شفافیت کیلئےاپنے وزراءاورپارٹی کارکنان کواس سےباہررکھیں گے۔ ان کے نامزدوزراء،گورنرزاوروزرائےاعلیٰ کوبھی یہ ہی طرزِزندگی اپناناہوگا۔ کرنےکیلئےابھی بہت کام ہےاوردیکھناہوگاکہ یہ سادگی مہم کتنی پُراثرہوگی اوراس سےہماری معاشرتی اورثقافتی زندگی پرکیاتبدیلی آئےگی۔ امید ہے کہ بعض اوقات وزراءاور حتٰی کہ وزیراعظم بھی ٹرین کے ذریعے سفرکریں گے اور یہ صرف وزیرِ ریلوے پر نہیں چھوڑیں گے۔ ’نئےپاکستان‘سےامیدیں بہت زیادہ وابستہ ہیں اسی لیے لوگوں نےعام طورپر ان کے پہلےخطاب کے’انداز‘ کو سراہا ہےکیونکہ وہ لوگوں سے بہت زیادہ جڑےنظرآئے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ زیادہ امیدیں وابستہ کرنا بعض اوقات مایوسی کاباعث بنتی ہیں لیکن امید ہے کہ ’نئےپاکستان‘ کے وزیراعظم افسردگی سے زیادہ خوشیاں لائیں گے۔ وہ پہلے ہی ایم پی ایزاور ایم پی ایزکےترقیاتی فنڈز بلدیاتی حکومت کو منتقل کرنےکااشارہ دے چکے ہیں اور ڈسٹرکٹ ناظموں کے براہِ راست انتخابات کرانے کامطالبہ کرچکے ہیں۔ انھوں نے کراچی کو پاکستان کامعاشی حب اور سب سے بڑا شہر بنانے کاوعدہ کیاہے۔ عمران خان کو اچھےارادوں اورکسی مخالف بیانئےکی غیرموجودگی میں اپوزیشن کیلئے انھیں چیلنج کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ مثال کےطورپرلوگ سندھ کی حکومت کا موازنہ مرکز اور پنجاب سے کریں گے۔ پی پی پی اور سندھ حکومت خود کوکتنا تبدیل کرتی ہے۔ اگراپوزیشن جماعتیں کوئی مخالف بیانیہ لانے میں ناکام ہوئیں تو عمران کا بیانیہ مضبوط ہوجائےگا۔ اب ان کی مضبوط کابینہ نےبھی حلف اٹھالیاہےاور چونکہ امکان ہے کہ چند مزید وزراءاورمشیرکابینہ میں شامل کیےجائیں گے تو امید ہے کہ کابینہ زیادہ بڑی نہیں ہوگی۔ وہ خوش نصیب ہیں کہ انھیں لوگوں اوراداروں کی جانب سےغیرمثالی حمایت حاصل ہے، یہ ایسی چیز ہے جو ’نئے پاکستان‘کیلئےضروری تھی اور کئی سالوں سے نہیں تھی۔ اس طرح کی حمایت کے ساتھ ان کے پاس اچھی حکومت نہ لانے کاکوئی بہانہ نہیں ہوگا۔ ان کی مرکز اور دوصوبوں پنجاب اور خیبرپختون خوامیں براہِ راست اور بلوچستان میں اتحادی حکومت ہے۔ ہم بات یہ ہے کہ انھوں نے ان بلوچ گروپس اور جنگجوئوں کے بارے میں بھی بات کی ہے جوناراض ہیں اور مرکزی دھارے میں نہیں ہیں۔ انھیں تاحال اپنی خارجہ پالیسی اور قومی سیکیورٹی پالیسی طےکرنی ہے اور یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔ یہ بہتر ہوگا کہ وہ بہت سے وزارتیں اپنے پاس رکھنے کی بجائےدوسروں کے حوالے کریں اور خود ایک کپتان کی طرح دیکھ بھال کریں۔ اگروہ تمام اداروں کو غیرسیاسی اورخودمختار کرنےکامنصوبہ رکھتے ہیں تو چند وزارتیں اپنےپاس رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ’نئےپاکستان‘ کے وزیراعظم نےاپنے ویژن اور تبدیلی کیلئےاصلاحی ایجنڈےکابھی بتایاہے۔