مزاحمتی سیاست کا استعارہ،مریم نواز

August 26, 2018

یوں تو ایک سیاستدان اپنے کردار و عمل کی بنیاد پر سیاست میں اپنی جگہ و مقام بناتاہے،لیکن یہ مزاحمتی سیاست ہی ہوتی ہے جو کسی سیاستدان کو نکھارتی اور سیاسی اُفق پر اُبھارتی ہے۔ ظاہر ہے سیاست کے یہ خدوخال گھر بیٹھے بیٹھے یا کسی کا لے پالک بننے سے تعبیر نہیں پاتے ، بلکہ یہ صورت قربانیوں اور جدوجہد سے مزین ہوتی ہے۔یوں تو پاک و ہند میںآزادی، جمہوریت اور انسانی بنیادی حقو ق کیلئے ہر دور میں خون کے چراغ روشن کئے گئے ہیں، زندانوں کو آباد کیا گیا ہے الغرض جانی ومالی مختلف قسم کے نقصانات برداشت کئےجانے کی لاتعداد مثالیں موجود ہیں،لیکن معروضی سیاست میں ایسا لگتا ہےکہ اب مزاحمتی سیاست کیلئے گنجائش کم سے کم ہوکر رہ گئی ہے۔ حالانکہ جب آپ ہر امر جس میں خواہ عوامی و ملکی بھلائی نہ بھی ہو،لیکن جو آپ کا منشا و ہدف ہو، تو ایسے عالم میں مزاحمت کا بروئے کارآنا عین فطرت بھی ہے اور سیاست کا اساسی تقاضا بھی۔ ایسے عالم میں ضرور ی ہوجاتا ہے کہ یا تو طاقتور اپنے قوت کے بل بوتے پراس چیلنج پر قابو پا لے ، یا پھر براہ راست دراندازی کی بجائے خالص سیاست میں ملاوٹ کرلے۔پاکستان میں ہر دو طریقہ ہائے کار مستعمل و فائد ہ مند ثابت ہوتے رہے ہیں ۔اس لئے رفتہ رفتہ مزاحمتی سیاست کمزرور ہوتی چلی گئی ۔تاہم اب بھی خال خال ہی سہی مگر نام موجود ہیں۔ ان میں نمایاں نام ایک خاتون کا ہے۔یہ اپنے پیش رو مزاحمتی خواتین سیاستدانوں ہی کی طرح باوقار سیاست کی پہچان بن گئی ہیں۔ہم یہاں صرف تین محترم خواتین کا ذکر کرتے ہیں جو مزاحمتی سیا ست ہی کی وجہ سے دیگر تما م خوبیوںکے باوصف آج بھی یاد رکھی جاتی ہیں۔ان میں پہلا نام محترمہ فاطمہ جنا ح کا ہے۔اس میں دو رائے نہیں کہ قائد اعظم کی ہمشیرہ و غم خوار ہونے کی وجہ سے بھی وہ پاکستانیوںکیلئے قابل قدر تھیں لیکن مزاحمتی سیاست ان کا بڑا حوالہ بن گیا۔یہ ڈکٹیٹروں کے راہ رو جنرل ایوب خان کے خلاف اُس وقت میدان میں آئیں، جب ملک پر مارشل لا کے مہیب سائے پر پھیلائے ہوئے تھے ۔ ایوب خان اپنے اقتدار کو دوام دینے کی من میں لیتی انگڑائی کی خاطر آمریت میں جمہوریت کا تڑکا لگانا چاہتے تھے۔پاکستان میں2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخابات میں محتر مہ فاطمہ جناح اور ڈکٹیٹر فیلڈ مارشل ایوب خان مد مقابل تھے۔ حکمران کنونشن مسلم لیگ کی جانب سے صدر ایوب کو صدارتی امیدوار نامزد کیا گیاتھا جبکہ محترمہ فاطمہ جناح حزب اختلاف کی اُمیدوار تھیں۔وہ صدارتی امیدوار بننے پر آمادہ نہ تھیں لیکن حزب مخالف کی سیاسی پارٹیوں کے اصرار پر انہوں نے ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے کی حامی بھرلی۔ملک بھر کے عوام کو اس بات کا کامل یقین تھا کہ محترمہ کامیاب ہوں گی، لیکن الیکشن کمیشن کے مطابق صدر ایوب کامیاب قرار دیے گئے۔انتخابی نتائج ایک ایسا کھلا’انتباہ‘تھاجس سے واضح کردیا گیا کہ ایک ڈکٹیٹر کیلئے سب سے اہم اُس کا ہدف ہوتا ہے ،اور جان لیا جائےکہ جب بانی پاکستان کی ہمشیرہ کو ’ہار ‘کا ہار پہنایا جاسکتاہے۔تو دیگر تو کسی کھاتے میں بھی شمار نہ ہونگے۔دوسری مثال محترمہ بیگم نسیم ولی خان کی ہیں، جنہوں نے مزاحمتی سیا ست کو نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔ذوالفقارعلی بھٹوکے دور میںپیپلز پارٹی کے فسطائی ہتھکنڈوں کی وجہ سے جناب ولی خان سمیت نیشنل عوامی پارٹی ( نیپ) کے چوٹی کے لیڈر جیلوں میں تھے۔اس موقع پر بیگم نسیم ولی خان میدان کارزار میں آئیں،اور اُن کی ’سیاہ چادر‘ عَلمِ مزاحمت ٹھہری۔مزاحمتی سیاست کا تیسرا روشن نام محترمہ بے نظیر بھٹو کا ہے، جنہوں نے جان کی پروا نہ کرتے ہوئے مزاحمت کا فیصلہ کیا اور امر ہوگئیں۔بعض الزامات ہوسکتے ہیں لیکن محترمہ کی تاریخ مزاحمتی سیاست سے ہی عبارت ہے۔والد کی موت پھر شاہنواز اور مرتضیٰ بھٹو کی شہادت کے بعد وہ میدان میں آئیں،اور چارسو پھر ہر نظر اُن پر جم کر رہ گئی۔مزاحمتی ادب و سیاست کے روشن ستارے حبیب جالب نیشنل عوامی پارٹی میں اور جیل میں ولی خان کے ساتھی تھے۔بھٹو صاحب کے دور میںنیپ کے دیگر اکابرین کی طرح ان پر بھی مظالم کے انبار لادے گئے تھے،لیکن ضیا صاحب کے دور میں جب1986میں بے نظیر بھٹو طویل جلا وطنی کے بعد وطن لوٹ رہی تھیں تو حبیب جالبؔ نے کہا تھا۔

ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے

پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتی لڑکی سے

ڈرے ہوئے ہیں‘ مرے ہوئے ہیںلرزیدہ لرزیدہ ہیں

ملّا، تاجر، جنرل جیالے ایک نہتی لڑکی سے

محترمہ مریم نواز آج کی مزاحمتی سیاست کا استعارہ بن چکی ہیں۔جیل جانے کے فیصلے نے اُن کے سیاسی وقار اور سیاسی قد میں حیرت انگیزاضافہ کیا ہے۔مریم نواز جن کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو نہیں بن سکتیں،ظاہر ہے ہر ایک کے اپنے عیوب و محاسن ہوتے ہیں، اس وجہ سے کوئی ،کوئی دوسرا نہیں بن سکتا،لیکن اُسی طرح نمایاں اور نامور ضرور ٹھہرتا ہے۔پاکستان کے مختلف حلقے ان دنوں مریم نواز کی بہادری، استقامت اور تدبر کا ذکر کرتےہیں۔اپنے والد کے موقف کو درست ثابت کرنے کی خاطر زندگی کی یہ پہلی عید تھی جو اُنہوں نے جیل میں گزاری ہے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ شریف خاندان کی سیاست ختم کردی گئی ہے۔لیکن جو اس سوچ سے اتفاق نہیں کرتے ، اُن کا کہنا ہے کہ مزاحمتی سیاست میں یہ جیل ہی ہوتی ہے جو خام کو کندن بنادیتی ہے۔ پھر پاکستانی معاشرے میں وہ خاتون جو جیل بھی چلی جائے،اور قید بامشقت بھی کاٹے، تو عوام ہمدردیاں نچھاور کرنے کے علاوہ ایسی خاتون کو بطور راہ نما بھی قبول کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ یک ’مجرم‘ قرار دینے پر پارلیمانی سیاست سے باہر ہونے اورنااہلی کے فیصلے کے اثرات کس قدر پائیدار ہوں گے اس کا فیصلہ ظاہر ہے وقت ہی نے کرنا ہےمگر سچ یہ بھی تو ہے کہ آج وہ صاحبانِ نظر جو مسلم لیگ کو درست طور پر اسٹیٹس کو کی جماعت سمجھتے رہے ہیں ، وہ بھی مریم نواز کی’ ’جواں مردی‘ ‘ پر داد دئیے بغیر نہیں رہ پاتے۔ممتاز صحافی،شاعراور دانشور احفاظ الرحمٰن، مریم نواز کو اپنی نظم ’چنبے دی چڑیا ، مریم کے نام، میں یوںخراج تحسین پیش کرتے ہیں

تیری آنکھیں چھلکتی چمکتی رہیں

جو جلایا ہے وہ دیپ جلتا رہے

مُسکراتی رہے، وار کھاتی رہے

تیری زنجیر یوں ہی چھنکتی رہے

جبر کے سامنے ساز بجتا رہے

چاہے طوفاں گرجتا برستار ہے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)