سلیم صافی نے ایسا کیا جرم کر دیا؟

August 27, 2018

برادرم سلیم صافی نے اپنی معلومات کی بنا پرجیو ٹی وی میں اپنے ایک تبصرہ کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف کے حوالے سے کہا کہ وزیر اعظم ہائوس میں اپنے قیام کے دوران وہ کچن کے اپنے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتےتھے۔ نجانے صافی صاحب کے اس انکشاف میں ایسا کیا تھا کہ جس کی وجہ سے سوشل میڈیا میں تحریک انصاف کے حمایتیوں کو جیسے آگ لگ گئی ہو۔ سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ کچھ ٹی وی اینکرزاور میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی بھی جیسے سٹ پٹا اُٹھے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ سلیم صافی کی معلومات درست نہیں تھیں تو درست معلومات شئیر کرلیتے لیکن جیوکے مقبول پروگرام جرگہ کے میزبان کے ساتھ ایک ایسا طوفان بدتمیزی شروع کر دیا گیا جس میں گالیوں، الزامات اور ہر قسم کی لعن طعن کا بہتات تھا۔ تحریک انصاف اور ان کی حکومت کے کسی ذمہ دار کی طرف سے اس معاملےپر کوئی روک ٹوک نہیں کی گئی۔ جو لوگ سلیم صافی کی تحریر کو پڑھتے رہے اور اُن کے پروگرام کو دیکھتے رہے وہ یہ سب یہ گواہی دے سکتے ہیں کہ اُنہوں نے نواز شریف حکومت کو بہت ٹف ٹائم دیا اور سخت ترین تنقید کی۔ لیکن آج اگر اپنی معلومات کی بنا پر وہ یہ خبر اپنے قارئین سے شئیر کر رہے ہیں کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے وزیر اعظم ہائوس میں اپنے اخراجات خود برداشت کئے تو یہ اتنا بڑا جرم بن گیا کہ سلیم صافی برداشت کے قابل نہیں رہا۔ ایک سیاسی جماعت اور اس کےرہنمائوں نے پاکستانی سیاست میں عدم برداشت اور گالم گلوچ کے جس رواج کو پروان چڑھایا اور جسے اب دوسروں نے بھی نقل کرنا شروع کردیا ہے، اُسے روکنے اور درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اختلاف رائے کی بنیاد پر دوسروں پر ہر قسم کی الزام تراشی اور گالم گلوچ کا ایک ایسا سلسلہ چل نکلا ہے جس سے اب کوئی نہیں بچ سکتا ۔ اس کام کے لئے سوشل میڈیا کو بطور خاص ہتھیار کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے اور المیہ یہ ہے کہ اچھے خاصے (نام نہاد) پڑھے لکھے افراد بھی اس بہتان تراشی اور گالم گلوچ کے گندے کھیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں ’’پڑھے لکھوں‘‘ کی باتیں سن کر افسوس ہوتا ہے کہ بحیثیت معاشرہ ہماری اخلاقی قدریںکس قدر تنزلی کا شکار ہیں۔میری حکومت، میڈیا اور سیاسی جماعتوں سے گزارش ہے کہ اس تنزلی کو روکنے کے لئے ایک طرف تعلیم کے ساتھ تربیت کو تعلیمی اداروں میں لازم کیا جائے تو دوسری طرف میڈیا اور سیاسی جماعتیں معاشرہ کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تربیت کرنے میںاپنا کردار ادا کریں تاکہ ہم اچھے مسلمان اور اچھے انسان پیدا کرسکیں۔ جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے، تمام سیاسی جماعتوں اور اہم رہنمائوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے کارکنوں کو گندی زبان، گالم گلوچ اور جھوٹا پروپیگنڈہ پھیلانے سے روکیں تاکہ سوشل میڈیا کے استعمال کو بامقصد بنایا جائے نہ کہ اس کو ایسی گندگی سے بھر دیا جائے کہ لوگ اس کو استعمال کرنا چھوڑ دیں۔ سوشل میڈٖیا کی اس مخصوص گندگی کا تو اب ٹی وی چینلز اور اخبارات میں بھی اثر نظر آتا ہے جس کی حوصلہ شکنی بہت ضروری ہے۔ تحریک انصاف کل تک اپوزیشن میں تھی لیکن اب اُس کی وفاق کے علاوہ پنجاب، خیبر پختون خوااور بلوچستان میں حکومتیں ہیں۔ اب تمام حکومتی ادارے اور ایجنسیاں بھی تحریک انصاف کو ہی جواب دہ ہیں۔ صحافیوں پر الزام تراشی اور انہیں گالم گلوچ کا نشانہ بنانے کی بجائے، تحریک انصاف کے کارکنوں کو چاہئے کہ وہ اپنی حکومت سے مطالبہ کریں کہ سلیم صافی کو غلط ثابت کرنے کے لئےتمام حقائق عوام کے سامنے رکھ دیں اور سب کو دکھا دیں کہ سابق وزیر اعظم نے وہ کچھ نہیں کیا جس کی اطلاع سلیم صافی نے عوام کو دی۔ بلکہ بہتر ہو گا کہ نواز شریف کے اُن تین سو ارب روپیے کے ثبوت بھی عوام کے سامنے پیش کردیں جو تحریک انصاف کے الزامات کے مطابق نواز شریف نے کرپشن سے کما کر ملک سے باہر بھیجے۔ عمران خان حکومت نے اچھا کیا کہ لاہور، اسلام آباد اور ملتان میٹرو کے ساتھ ساتھ لاہور اورنج لائن کے فارنسک آڈٹ کا حکم دے دیا جس سے کم از کم تحریک انصاف کے اُس الزام کی حقیقت کا بھی پتہ چل جائیگا کہ ان تمام پروجیکٹس کے ذریعے نواز شریف اور شہباز شریف نے اربوں روپیے کمیشن کے طور پر کمائے۔ تحریک انصاف کے پاس اب سنہری موقع ہے کہ ماضی میں لگائے گئے اپنے ایک ایک الزام کے ثبوت کو ساری دنیا کے سامنے پیش کر دے۔

جہاں تک عوام کے پیسہ کو ضائع ہونے اور حکمرانوں اور افسر شاہی کی عیاشیوں پر خرچ ہونے سے بچانے کے متعلق حکومتی فیصلہ کا تعلق ہے اس کی میں مکمل تائید کرتا ہوں۔ وزیر اعظم نے اگرچہ اپنے آپ سے سادگی کے ذریعے قوم کے پیسے کو ضائع ہونے سے بچانے کا آغاز کر دیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ پاکستان کی سول بیوروکریسی، دفاعی اداروں کے افسران اور جج حضرات کس طرح عمران خان کے اس فیصلہ کو کامیاب بنانے کے لئےاپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ ٹیکس کے پیسوں سے بنائے گئے محلات کو سرکاری رہاشگاہوں کے طور پر استعمال کرنے کا ہمارے حکمرانوں اور افسر شاہی میں ہمیشہ سے رواج رہا۔ سرکاری پیسہ سے قیمتی گاڑیوں کا استعمال بھی یہاں عام ہے۔ عوام کے پیسہ سے بیرون ملک دورے کرنا اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں رہنا بھی یہاں معمول کی بات ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی گزشتہ کابینہ میٹنگ میں اس نوعیت کے حکومتی اخراجات کو کم سے کم کرنے کے لئےکچھ اہم فیصلے بھی کئے جن پر عمل درآمد ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ اس نوعیت کے فیصلوں پر عملدرآمد کے لئےوزیر اعظم کو اہم قومی اداروں کی طرف سے مکمل سپورٹ کی ضرورت ہو گی۔ میری چیف جسٹس ثاقب نثار، تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور سول بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران سے درخواست ہے کہ وہ وزیر اعظم عمران خان کے اس بہترین کام میں عملی طور پر ساتھ دیں تاکہ سادگی اور کفایت شعاری کو عام کیا جا سکے اور اس طرح بچائے جانےوالے پیسے کو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کیا جا سکے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)