فاروق عبداللہ کی جئے

August 27, 2018

عید کے روز سرینگر کی تاریخی حضرتبل درگاہ میں عید کی نماز کے موقع پر جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کی موجودگی پر لوگوں نے سخت احتجاج کیا اور ان پر پھبتیاں کسیں، انہیں جوتے دکھائے اور انہیں دیکھ کر کشمیر سے بھاگ جانے کے نعرے لگائے جسکی وجہ سے انہیں عید نماز کے خطبے سے پہلے ہی وہاں سے بھاگنا پڑا- اس عوامی غیظ وغضب کی وجہ ان کی حالیہ تقریر تھی جو انہوں نے بھارت کے سابق وزیراعظم اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈر اٹل بہاری واجپائی کے سوگ میں ہونے والی ایک مجلس کے دوران کی- اس میں عبداللہ نے ’جئے ہند‘ کے گرجدار اور فلک شگاف نعرے لگاکر وہاں پر موجود افراد کو حیران کردیا جن میں بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی بھی شامل تھے- تعزیتی تقریر میں فاروق عبداللہ نے جذبات میں آکر ’بھارت ماتا کی جئے‘ کے نعرے بھی لگائے جسکی وجہ سے مجلس کا رنگ ہی بدل گیا اور لوگوں میں جوش اور جذبہ بھر گیا جنھوں نے بڑے جذباتی انداز میں نعروں کا جواب دیا- تقریر کے دوران انھوں یہ بھی کہا کہ جو لوگ 'بھارت ماتا کی جئےنہیں کہتے انہیں ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے- عبداللہ کی اس تازہ کارکردگی پر بھارت میں انکی بے انتہا پذیرائی ہورہی ہے اور کئی ٹیلی ویژن چینلز جو اپنی کشمیر اور مسلم دشمنی میں کافی مشہور ہیں ان کو ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں-اسکے برعکس کشمیر میں انکے اور انکی جماعت نیشنل کانفرنس کیخلاف کافی غم و غصّہ پھیل گیا ہے- سوشل میڈیا پر لوگوں نے عبداللہ خاندان اور خاص کر فاروق عبداللہ کے والد شیخ محمّد عبداللہ کیخلاف قابل نفرت الفاظ استعمال کئے اور انہیں کشمیر کے موجودہ حالات کا ذمہ دار قرار دیا- نیشنل کانفرنس سے وابستہ ایک سابق صوبائی وزیر نے مجھے بتایا کہ فاروق عبداللہ کی بیوقوفیاں نیشنل کانفرنس کو لے ڈوبیں گی- انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی اس نعرہ بازی سے پارٹی کے کارکنوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہ ممکنہ عوامی غیظ و غضب کی وجہ سے اپنی سیکورٹی کے حوالے سے پریشان ہو گئے ہیں- کچھ ایسی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ عبداللہ بی جے پی سے مل کر اقتدار پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور ان کی جذباتی بھارت نواز نعرے بازی شاید اسی کوشش کا ایک حصّہ ہے- کئی ہفتوں سے کئی معتبر ذرائع مسلسل ان خدشات کا اظہار کررہے ہیں کہ بی جے پی کے ساتھ نیشنل کانفرنس کا ملاپ غیر معمولی حد تک بڑھ گیا ہے جس سے ان خبروں کو تقویت مل رہی ہے- دو دن پہلے جب سرینگر میں صحافیوں نے فاروق عبداللہ سے استفسار کیا تو انہوں نے اس کے جواب میں کیمروں کے سامنے ایک فحش اشارہ کیا جو حالیہ عوامی ردعمل کے باعث ان کی ذہنی پریشانیوں کی طرف ایک واضح اشارہ تھا۔

فاروق عبداللہ اپنے والد شیخ محمّد عبداللہ کی عمر کے آخری حصے میں سیاست میں آئے اور لگ بھگ چار دہائیوں سے منظر عام پر ہیں- اپنے والد مرحوم کی طرح آپ بھی اقتدار کے حصول کو ہی اپنی منزل سمجھتے ہیں اور اسکے لئے ہر قسم کے پنتیرے بدلنے کے ماہر ہیں- مرحوم شیخ عبداللہ نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز الحاق پاکستان کی حامی جموں و کشمیر مسلم کانفرنس سے کیا جسے بعد انہوں نے نیشنل کانفرنس میں بدل کر کشمیر میں سیکولر سیاست کا آغاز کیا جو بعد میں بھارت کے ساتھ الحاق پر منتج ہوا- اس دوران انہوں نے کئی قسم کے مذہبی اور مسلکی تجربات بھی کئے- ایک طرف آپ قادیانی مذہب کے پیروکاروں سے میل جول بڑھاتے رہے اور ان سے لفافے کے وصول کرتے رہے تو دوسری طرف وہابی مکتب فکر کے افراد سے بھی پینگیں بڑھاتے رہے- آپ نے کئی سالوں تک کمیونسٹوں کو بھی دھوکے میں رکھا - بھارت کے ساتھ الحاق کے صرف چھ سال کے بعد عبداللہ دلبرداشتہ ہوگئے اور ایک خود مختار ریاست کے تانے بانے بننےلگے- اس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو پتہ چلا تو انہوں نے شیخ محمّد عبداللہ وزیراعظم جموں و کشمیر کو پولیس کے ایک معمولی ڈی ایس پی کے ذریعے بڑی بےعزتی کرکے گرفتار کروایا- عبداللہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ جلا وطنی کی حالت میں نظر بند رہے جس دوران آپ نے کشمیر کے اندر ہزاروں عوامی مظاہروں کو تحریک دی جن میں سینکڑوں افراد جانبحق ہوگئے- پھر آپ نے پنتیرا بدلا اور دوبارہ نہرو کے دربار میں سجدہ ریز ہوگئے- نتیجتاً ماضی کا شیر کشمیر وزیراعظم سے وزیراعلیٰ بننے پر راضی ہوگیا اور اپنی قوم سے کئےگئے وعدوں اور ان کی قربانیوں کو یکسر بھول گیا- اگر پرانے ساتھیوں میں سے کسی نے انہیں بھولے سے بھی ان کے وعدے یاد دلائے تو اسے جبرو تشدد کا نشانہ بناکر اور پابند سلاسل کرکے کسی بھی ممکنہ بغاوت کو ختم کردیا گیا- شیخ صاحب نے اپنے ان قریبی ساتھیوں کو بھی نہیں بخشا جنہوں نے ان کے سیاسی کیریئر کے آغاز میں ہر طرح سے ان کی مدد کی تھی- شیخ صاحب کے فرزند ارجمند فاروق عبداللہ سیاست میں آئے تو خودمختار کشمیر کے حامی تھے اور کئی لوگ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس زمانے میں آپ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے باضابطہ ممبر تھے- آپ نے آزاد کشمیر کا دورہ بھی کیا اور فرنٹ کی قیادت خاص کر مرحوم مقبول بٹ سے لمبی ملاقاتیں بھی کیں-اسوقت آپ نے مبینہ طور پر اپنے خون سے ایک حلف نامہ بھی تحریر کیا تھا جس میں وطن کی آزادی کیلئے ضرورت پڑنے پر اپنی جان کی بازی لگانے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا- والد کی وفات کے بعد جب اقتدار کا ہما آپ کے گنجے سر پر بیٹھ گیا تو آپ کچھ مخالفین کے بقول سارے وعدے بھول کر اپنے پرانے ساتھیوں کی تلاش میں نکلے اور انہیں چن چن کر نشانہ بنایا- بعد میں مقبول بٹ گرفتار ہوگئے جنہیں اندرا گاندھی کی حکومت نے 11 فروری 1984ء کو پھانسی دے دی- اطلاعات کے مطابق فاروق عبداللہ جو اس وقت ریاست جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ تھے نے پھانسی کی درپردہ حمایت کی- 1987ء میں فاروق عبداللہ کی حکومت نے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی سےمل کر ریاستی انتخابات میں زبردست دھاندلی کروائی اور احتجاجی نوجوانوں کو عقوبت خانوں میں ڈال دیا جس سے آزادی پسند عسکریت پسندی کی بنیاد پڑگئی جس میں اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری لقمہ اجل بن گئے ہیں اور بدستور بن رہے ہیں- اس دوران جونیئر عبداللہ اقتدار میں بھی رہے ہیں اور اس سے باہر بھی اور آپ نے اپنے مرحوم والد صاحب کی تقلید میں ہمیشہ موقع کی مناسبت سے تضاد سے بھر پور مختلف النوع بیانات دیئے ہیں- بھارت ماتا کی جئے کے نعرے لگانے سے قبل آپ نے کئی مواقع پر حکومت ہند کو آڑے ہاتھوں لیا اور انہیں کشمیر میں موجودہ خراب حالات کا ذمہ دار قرار دیا- دسمبر 2016ء جب برہان وانی کی وفات کے بعد عوامی شورش زوروں پر تھی تو آپ نے آزادی پسند تحریک کی حمایت کرتے ہوئے حریت کانفرنس کے ساتھ مل کر لڑنے کا عندیہ دیا تھا ۔