کلدیپ نائر، امن پسند آپ کو یاد کرتے ہیں

August 31, 2018

اس دفعہ14؍اگت کو واہگہ بارڈر کے دونوں طرف موم بتیاں جلاتے ہوئے امن کے نعرے لگانے والے موجود نہیں تھے۔ دونوں طرف کے سپاہی ہزار منع کرتے، مگر دیوانے تھے کہ پہنچ جاتے، آزادی اور امن کے نعرے لگاتے، تقریریں کرتے، ان کو دیکھا دیکھی ادھر سارا امرتسر جمع ہوجاتا اور ادھر لاہور کے نوجوان، بوڑھے اور خواتین جھنڈے اٹھائے ہوئے موجود ہوتے تھے۔ پر اس سال کیا ہوا۔ اس دفعہ امن لانے والوں کے سربراہ کلدیپ نائر، اسپتال میں تھے، ادھر پاکستان میں عاصمہ جہانگیر زندگی سے روٹھ گئی تھیں اور اب کلدیپ نائر جو پچاس سال سے ہندوستان، پاکستان میں امن، دوستی اور سرحدوں کو آنے جانے کے لئے نرم کرنے کی بات کرتے تھے، وہ بھی چلے گئے۔ رحمان صاحب بھی بہت بزرگ ہوگئے ہیں اور مجھ جیسے بوڑھے اسلام آباد میں تھے، مگر ہم تو ہر سال اسلام آباد سے واہگہ بارڈر پہنچا کرتے تھے۔ یہ کیوں ہوا کہ ہمارے لیڈر مر گئے تو ہم خود کو بے آسرا سمجھنے لگے۔ قائداعظم کے مرنے کے بعد بھی تو آپا دھاپی شروع ہوگئی تھی جو اب تک جاری تھی۔ امن اور آزادی کے نام پر بعض لوگ جنگی تیاریاں کرتے رہتے تھے۔ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے رکن بن کر معلوم نہیں، کس کے خرچے پر، ہندوستان، پاکستان میں نہیں، بنکاک میں جاکر میٹنگیں کرنے لگتے تھے۔ جب کبھی وہ لوگ عاصمہ کو بھی بلاتے تھے، مگر یہ میٹنگز نیپال یا سری لنکا میں ہوتی تھیں۔ وہاں بہت سے وعدے وعید کرنے اور مجھ سے نظمیں سننے کے بعد مائونٹ ایورسٹ کے پیچھے سے سورج نکلتے ہوئے دیکھنے کے لئے صبح چار بجے روانہ ہوتے، ہوٹل پہنچ کر سورج کی ابھرتی کرنوں کو آنکھوں میں چبھتا ہوا دیکھ کر، نیچے اتر کر ناشتہ کرتے تھے۔ باتیں اور وعدے اگلے ایجنڈے کے لئے چھوڑ کرہم روانہ ہوجایا کرتے تھے۔ کلدیپ جی اور عاصمہ یاد دلائیں عمران کو! یہ مشعل آپ پکڑیں گے۔

کلدیپ نائر کے کالم سنڈیکٹ ہوتے تھے۔ یعنی دنیابھر کے اخبارات میں اردو اور انگریزی میں شائع ہوا کرتے تھے۔ ناانصافی کے اقدامات چاہے انڈیا کرتا یا پاکستان یا پھر امریکہ، اس کے خلاف برملا لکھتے تھے۔ پانچ، سات سال ہوئے، ان کے گھٹنوں میں تکلیف ہوئی، پھر بھی امن کے لئے ہر سال پاکستان کا دورہ کیا۔ گزشتہ سال سے انڈیا میں جتنی نفرتیں پھیلائی گئیں، ان پر لکھا، پاکستان کے شدت پسندوں کے خلاف بھی لکھا۔ مگر اب بقول علامہ اقبال، پاکستان نے پہلے امن کا سندیسہ، انڈیا اور افغانستان کو دیا ہے، عمران خان، 14؍اگست کے بعد وزیراعظم بنے ہیں ورنہ ہم ان سے درخواست کرتے کہ وہ بھی جوانوں کو واہگہ سرحد پر بھیجیں اور ادھر انڈیا میں، امن کے لئے مسلسل اٹھنے والی چند آوازوں میں سے ایک آواز ہے منی شنکر آئر کی۔ وہ پاکستان، ہندوستان میں امن کے لئے مسلسل کوششیں کرتے رے ہیں۔ البتہ جب میں پاکستان میں پاک۔ انڈیا دوستی کے رہنمائوں کی جانب دیکھتی ہوں تو اکثر مجھ سے بھی زیادہ بزرگ ہوگئے ہیں۔ ہمارے درمیان مدیحہ گوہر تھی وہ بھی ڈرامے کے ذریعے انڈیا، پاکستان دوستی اور ثقافتی تبادلوں کی بے پناہ کوشش کرتی تھی۔ انڈیا میں تپن بوس اور رئیلہ پاک۔ انڈیا دوستی پر کام کرتے رہے مگر انڈین حکومت ان کو کام کرنے نہیں دے رہی۔ وہ تو سدھو کے پاکستان آنے پر آگ بگولہ ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے اندر امن کے لئے پلیٹ فارم پیدا اور مستحکم کرنے کے لئے اسی تیزی سے عمران خان کو کام کرنا ہے جس تیزی سے کرکٹ کی انتظامیہ کو بدلنے کے لئے کیا ہے۔ پی ٹی آئی میں بہت نوجوان، خواتین و حضرات ہیں۔ بچوں اور طلبا کے تبادلوں اور مقصدی ڈائیلاگ کا اہتمام ہو۔ یوں نہ ہو کہ شہریار صاحب دہلی رکیں اس لئے کہ بیگم کو کچھ ساڑھیاں خریدنی تھیں۔ ضرور تجارت بڑھنی چاہئے، مگر ایسا نہ ہو کہ جیسے پہلے خواتین بڑے سوٹ کیس میں تین اور خالی سوٹ کیس رکھ کرلے جاتی تھیں۔ واپسی پر20ہزار روپے زائد سامان کے دے کر، اپنی بوتیک کا اشتہار دیتی تھیں اور اگلے وہ سارے پیسے وصول ہو جاتے تھے جو زائد سامان کے لیے دیئے تھے۔

دونوں ممالک کے درمیان اس وقت بھی اسمگلنگ کے ذریعے اربوں روپے کی تجارت ہو رہی ہے۔ ہلدی رام، لکھنو کے کرتے بہت مہنگے مل رہے ہیں، ہم دونوں ممالک، ایک ایک کر کے، اپنے پانچ چھ بارڈر کھول دیں، بھئی شمالی اور جنوبی کوریا کے بڈھے گلے مل رہے ہیں۔ میں بھی کامنا اور رشی سے ملنا چاہتی ہوں۔ میں پورے انڈیا کی موجودہ ثقافت پر کتاب لکھ کر، پاکستانیوں کو متعارف کرانا چاہتی ہوں۔ شعیب سلطان صاحب نے آندھرا کے علاقے میں جاکر بہت بنیادی کام کیا ہے۔ راہول گاندھی نے کانگریس کی جانب سے ان کی رہنمائی میں لوگوں کی غربت دور کی ہے، الوک بھلا صاحب نے نگر نگر گھوم کر پاکستان اور ہندوستان کی کہانیاں ہندی میں ترجمہ کی ہیں۔ انتظار صاحب کو پریم چند ایوارڈ دیا گیا تھا، جس کے تحت انہوں نے دو سفرنامے لکھے۔ حکومت بدلی تو پریم چند ایوارڈ کے لئے انڈین حکومت نے پاکستانیوں کو بلانا ہی بند کردیا۔ فلموں میں ہمارے کچھ نوجوانوں نے اتنے اچھے کردار ادا کئے، دنیا بھر میں تعریف ہوئی مگر وہ ذہنیت جو واجپائی جی میں نہیں تھی، ایڈوانی میں نہیں تھی، وہ سنپولیوں کی طرح باہر نکلی اور انڈیا کا وہ ثقافتی اثاثہ جو بدھ مت سے لے کر، اشوک اور مغلوں کے زمانے میں جاری رہا، اس کو یکایک ایسا غارت کیا، معلوم نہیں یہ نفرتوں کے دھبے کتنی برساتوں کے بعد دھلیں گے کہ عمران خان کی شخصی قبولیت شاید معجزہ دکھا دے کہ ہم جنگ کی باتیں کرنا بھول جائیں۔ لوگوں کو یاد کرائیں کہ65ء کی ہو کہ 71ء کی، جنگ نے دونوں ملکوں کو ذہنی طور پر نقصان پہنچایا۔

عمران خان صاحب! سنیں تو سہی، ہمارے ملک میں انڈیا کا میڈیا نہیں دیکھا جاسکتا اور یہی حال انڈیا کا ہے، آج سے چند سال پہلے ہمارے اخباروں کے نمائندے انڈیا میں اور ان کے نمائندہ پاکستان میں ہوتے تھے۔ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کے ہر شہر میں بسم اللہ خاں کی شہنائی دو زانو بیٹھ کر سنی ہے۔ انڈیا میں حیدرآباد دکن سے لے کر کتنی جگہوں پر محبت میں ہمارے پیارے صادقین نے اپنے پیسے خرچ کر کے، میورل بنائے ہیں۔ حسین صاحب کی تصویروں کی نمائش ہوئی۔ ساری پینٹگز ہاتھوں ہاتھ لی گئیں۔ کون سا مہینہ تھا کہ جب انڈیا کے ادیب پاکستان اور پاکستان کے ادیب انڈیا سیمینار میں بلائے جاتے تھے۔ ہم نے مشترکہ موسیقی کی محفلیں بھی کی ہیں۔ بہت ذمہ داری ہے عمران خان صاحب آپ کی۔ یہ بگڑی ہوئی ذہنیت آپ ہی تبدیل کرسکتے ہیں۔ اللہ قیامت میں آپ سے انسانی خدمت کا پوچھے گا۔ میرے بچوں کو پینے کا صاف پانی دیں، پانی جو آپ کے بیٹے پیتے ہیں۔ وہ ہماری پیاس بجھائے گا۔